25 June 2013
23 June 2013
22 June 2013
Why Tahir Ul Qadri failed
It's been some 5 months or more since Tahir Ul Qadri's long march.His long march had put the whole nation in the sensation.All were curious then to know tha twhat would happen next.Unfortunately,he had to end the three day long sit-in protest in a very clumsy manner.He asked the same government for dialogue which had been declared Yazeedi government by him,earlier.
Many analysts,in fact almost all of them said that his purpose for the long march was to get the elections delayed,a pro-longed caretaker setup,with him being the caretaker PM.I can neither affirm the views of those analysts nor deny it,but i can certainly say that despite religious controversies attached to his past,his demands reagrding electoral reforms were aparently very much on the track.PTI which had decided to not to participate in the march,accepted later that his demands were right.Imran Khan acknowledged this in his very first speech after taking the oath.
I do'nt know what was the real motive of Qadri but if getting the elections delayed was his agenda,he chose a wong time for a perfect plan.He should have had carried out his plan after the formation of provincial and federal caretaker governments.Due to his sit-in,caretaker govt would have come under pressure,a few security lapses across the country and the money spent to provide security to his sit-in would provide a valid reason to the caretaker setup to extend their reign.Mere one statement of caretaker PM could postpone the elctions then.even the weather would be perfect then for a sit-in.
I hope Qadri will plan thngs with minute details,if he ever wished to carry out a long march in the future again.
21 June 2013
Ayaz Amir-the true rebel
Labels:
.terrorist,
Ayaz Amir,
Baghi,
Doha,
PMLN,
PTI,
Qatar,
rebel,
taliban,
Taliban-USA dialogue,
terrorism
19 June 2013
PMLN's dual policy regarding luxury tax
روزنامہ ایکسپریس 19 جون 2013 |
روزنامہ ایکسپریس 20 جون 2013 |
روزنامہ جنگ ٢٠ جون 2013 |
جناب چیف جسٹس صاحب نے یکساں لوڈ شیڈنگ کے لئے تو فورا آرڈر جاری کر دیا تھا ،اب لاہور ہائی کورٹ میں بیٹھے اپنے ماتحتوں سے کہیں نا کہ وہ اس پر نوٹس لیں کہ کیوں وزیر اعلی ہاوس اور جاتی عمرہ سمیت ان مقامات کو ٹیکس میں استثنیٰ دیا گیا ہے ،جو حکومتی اراکین یا ان کے دوستوں کی ملکیت ہیں ؟
دوسری طرف خود کو خادم اعلی کہلوانے کے شوقین میاں شہباز شریف کو بھی شرم آنی چاہیے کہ نہ صرف اپنے اور اپنے یاروں زرداری اور ملک ریاض کی رہایش گاہوں کو تو اس ٹیکس سے بچا لیا گیا ہے،بلکہ فوج کی خوشامد کے طور پر کنٹونمنٹ بورڈز کے زیراہتمام علاقوں میں اس کا اطلاق تجویز نہیں کیا گیا ،اور کسی زمانے میں جس وزیر اعلی ہاوس میں انہوں نے یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا تھا ،اس کو بھی مستثنی رکھا گیا ہے اس ٹیکس سے.
کیا یہی غریب پروری ہے نام نہاد خادم اعلی کی ؟
دوسری طرف خود کو خادم اعلی کہلوانے کے شوقین میاں شہباز شریف کو بھی شرم آنی چاہیے کہ نہ صرف اپنے اور اپنے یاروں زرداری اور ملک ریاض کی رہایش گاہوں کو تو اس ٹیکس سے بچا لیا گیا ہے،بلکہ فوج کی خوشامد کے طور پر کنٹونمنٹ بورڈز کے زیراہتمام علاقوں میں اس کا اطلاق تجویز نہیں کیا گیا ،اور کسی زمانے میں جس وزیر اعلی ہاوس میں انہوں نے یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا تھا ،اس کو بھی مستثنی رکھا گیا ہے اس ٹیکس سے.
کیا یہی غریب پروری ہے نام نہاد خادم اعلی کی ؟
17 June 2013
16 June 2013
لیلتہ القدر اور ایک نکتہ
یہ آج سے 2 سل قبل کا واقعہ ہے کہ ماہ رمضان میں دنیا ٹی وی پر لیلتہ القدر کی ٹرانسمیشن چل رہی تھی ،انیق احمد میزبان تھے اور خانم طیبہ بخاری مہمان کی حثیت سے مدعو تھیں .انیق احمد صاحب نے سوال کیا کہ سورہٴ قدر میں جو ہزار راتوں کا ذکر ہے ،کیا اس سے مرد ٹھیک ہزار راتیں ہے ہیں یا ہزارہا راتیں ہیں ؟تو خانم نے جواب دیا کہ ہزارہا راتیں مراد ہیں ،کیونکہ عربی اسلوب کے مطابق کسی زھیز کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اسی طرح کا اسلوب استعمال کیا جاتا ہے .کچ اسی طرح کی چیز میں نے طفیل ہاشمی نامی ایک صاحب سے بھی سن رکھی تھی ،جو پی ٹی وی پر نمودار ہونے کا شرف بھی رکھتے تھے اور جن کے مطابق حضرت داؤد علی نبینا و علیہ سلام لوہا بھٹی میں گرم کرتے تھے،ان کے ہاتھ میں آ کر معجزے کے طور پر لوہا نرم نہیں ہوتا تھا .خیر اس وقت تو میں نے بھی یہی سوچا کہ پروردگار کی لا محدود رحمت کو ایک عدد تک محدود کرنا مناسب نہیں .
لیکن کل رات جب میں سونے کے لئے لیٹا تو خیالات کا رخ اس جانب نکل گیا .سوچتے سوچتے اچانک ایک خیال آیا کہ اگر خانم طیبہ کی بات کو پرکھا جائے تو وہ غلط نظر آتی ہے کیونکہ جس اسلوب کی وہ بات کر رہی تھیں وہ تقریبا ویسے ہی اردو میں بھی رایج ہے ،مثلا اگر میں کسی کو 4 ،3 بار کہوں کہ فلاں کام کر دو میرا ،اور وہ نہ کرے تو میں اسے جتانے کے لئے کہوں گا کہ میں پچاس بار کہہ چکا ہوں یہ کام کرنے کے لئے.لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اس اسلوب کے مطابق اصل نمبر یا تعداد کم ہوتی ہے اور مبالغہ کر کے اسے زیادہ بیان کیا جاتا ہے .یہ اسلوب سورہٴ قدر پر لاگو کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ اصل میں شب قدر کی فضیلت نعوزباللہ ہزار راتوں سے بھی کم ہے ،اور محض اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے 1000 کا عدد استعمال کیا گیا ہے .
رہی بات ایک عدد تک محدود کرنے کی ،تو یہ بات تو بہرحال مسلّم ہے کہ اعداد کی اپنی اہمیت ہے ورنہ قرآن میں اصحاب کہف کے 309 سال کی نیند کا ذکر نہ ہوتا ،موسیٰ علی نبینا و علیہ سلام کی قوم کے 12 سرداروں کا ذکر نہ ہوتا وغیرہ وغیرہ .
لہذا اب میرا یہ ماننا ہے کہ ہزار راتوں سے مراد سورہٴ قدر میں ٹھیک ہزار راتیں ہی ہیں
15 June 2013
A brief review of budget and its after effects
Labels:
awam dushman,
budget,
CJ,
corrupt,
corrupt judges,
corruption,
daily,
dunya,
express,
for the record,
ishaq dar,
jang,
Judiciary,
Nawaz Shareef,
news,
periodical review of PMLN's perforamnce,
PMLN,
talat hussain
12 June 2013
عمران خان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے
اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ انتخابات میں الیکشن کمیشن اور عدلیہ نے واضح طور پر جانبداری کا ثبوت دیا ،مگر اس کے باوجود حزب اختلاف کی سب سے موثر جماعت یعنی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ابھی تک کوئی ٹھوس موقف نہیں لیا .شروع میں ان کا کہنا تھا کہ پچیس حلقوں میں انگوٹھے کے نشان کی تصدیق کروائی جائے ،پھر یہ مطالبہ کم ہو کر چار حلقوں تک رہ گیا .الکشن کمیشن نے اس مطالبے کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں.
اب سننے میں آ رہا ہے کہ خان صاحب عید کے بعد دھاندلی کے خلاف مہم چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں ،مرے خیال سے تو خان صاحب کو طاہر القادری کا ساتھ دے دینا چاہیے تھا ،اس وقت مگر انہوں نے ان میڈیا اینکرز کی راے کو ترجیح دی جو کبھی ان کے خیر خواہ نہ رہے ،اور چند ایک جو سو وقت خیر خواہ بنا ہوے تھے ،انتخابت کے دوران اور بعد میں ان کی اصلیت سامنے آ گیی .
بہرحال اب اگر خان صاحب دھاندلی کے خلاف تحریک کے اپنے اس بیان سے پھر جاتے ہیں ،تو پھر اگلے انتخابات میں ان کو اس تعداد کا نصف ووٹ بینک بھی نہیں مل سکے گا،جو ابھی ملا ہے .اگر نوجوانوں نے ان پر اعتماد کیا ہے اور نوجوانوں کے دیۓ ہے مینڈیٹ کو کسی نے تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے ،تو یہ عمران خان کا فرض ہے کہ وہ نوجوانوں کو یقین دلایں کہ مجھے آپ کے ایک ایک ووٹ کی قدر ہے ،اور میں اس دھاندلی کے خلاف آواز اٹھاوں گا .
جو چیز خان صاحب کر سکتے ہیں ،اور ان کے لئے بہتر بھی ہے ،وہ یہ کہ وہ کم سے کم 15 ستمبر تک انتظار کریں .تب تک ممکنہ طور پر مہنگائی اور بڑھ چکی ہو گی ،عوام حکمت سے بیزار ہو چکی ہو گی ،موسم بھی قدرے بہتر ہو گیا ہو گا ،اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی تشکیل کو ١٠٠ دن گزر چکے ہوں گے .پختونخواہ میں ان کی حکومت بھی کچھ نہ کچھ ٹریلر دکھا چکی ہو گی اپنی پرفارمنس کا .لہذا ١٥ ستمبر کے بعد یا یکم اکتوبر کے بعد دھاندلی کے خلاف تحریک شروع کرنا ان کے لیے ہر حال میں سودمند رہے گا . بہتر ہو گا کہ وہ دوسری جماعتوں جنہیں انتخابی نتایج پر شدید تحفظات ہیں ،ان کے ساتھ مل کر ملک گیر سول نافرمانی کی تحریک چلایں ،کیونکہ جب عدلیہ ،الیکشن کمیشن اور تمام ریاستی مشینری کسی ایک جماعت یا گروہ کی جانبداری پر تل چکی ہو تو یہی ایک مصر راستہ رہ جاتا ہے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کا .
اور اگر یہ تحریک کامیاب ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ہر بڑے شہر میں ایک تحریر اسکوائر بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں تاکہ ان کرپٹ عناصر کی انے ولی نسلیں بھی اس سبق کو نہ بھول سکیں .
اور اگر یہ تحریک کامیاب ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ہر بڑے شہر میں ایک تحریر اسکوائر بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں تاکہ ان کرپٹ عناصر کی انے ولی نسلیں بھی اس سبق کو نہ بھول سکیں .
04 June 2013
برمودا تکون (ٹرایی اینگل ) کی حقیقت
سلام .قارئین آپ نے برمودا تکون کے بارے میں بہت کچھ سنا ہو گا ،آج آپ کو برمودا تکون کی حقیقت کے متعلق خواجہ شمس الدین عظیمی کا موقف بتاتے ہیں،جو روحانی ڈائجسٹ میں شایع ہو چکا ہے .ذیل میں یہ اقتباس نقل کیا جا رہا ہے :
خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ برمودا ٹرائی اینگل کا علاقہ ایسی روشنیوں کا مجموعہ ہے، جسے انسانی آنکھ جذب نہیں کرسکتی۔ عام روشنی کو انسانی آنکھ دیکھ کے جذب کر لیتی ہے، لیکن برمودا ٹرائی اینگل میں پائی جانے والی روشنیاں بنفشیٔ شعا عوں سے بھی زیادہ لطیف ہیں۔ ان شعاعوں کی ایک جھلک ہی انسانی آنکھ کو خیرہ کر دیتی ہے۔ انسانی جسم رنگ اور روشنیوں کا مرکب ہے ۔اس لئے جب کوئی ذی روح اس علاقے میں داخل ہوتا ہے تو اس کے جسم میں پائی جانے والی روشنی ان لطیف بنفشیٔ روشنیوں میں تحلیل ہو جاتی ہے اس طرح اس کی مادّی حالت بھی تبدیل ہو جاتی ہے، جس طرح اگر سورج نکل آئے تو تمام مصنوعی روشنیاں ماند پڑجاتی ہیں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جدید دنیا میں روشنی کی شعاعیں یا نور کی دریافت قسمیں بہت تھوڑی ہیں۔ پچیس نہیں تو تیس ہوں گی۔ جیسے الفاریز، گاما ریز، بی ٹا ریز، الیکٹرک ریز، لیزر ، پروٹون ریز اور ریڈی ایشن وغیرہ…. یعنی ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کے انوار کو سمجھنے کا علم محدود ہے۔ جبکہ روحانی علوم کے ماہرین انوار کی اقسام ایک لاکھ چالیس ہزاربتاتے ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ستر ہزار حجابات نوری اور اتنے ہی ناری ہیں۔ ناری سے مراد تخریبی انرجی اور نوری تعمیری انرجی ہے۔اس کے ساتھ جب ہم الیکٹرسٹی کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں بھی بیک وقت تعمیری اور تخریبی صلاحیتیں کام کررہی ہیں۔ یہ صلاحیتیں انسانوں کی فلاح و بہبود میں بھی استعمال ہوتی ہیں اور شاک SHOCK کی صورت میں ان کے لئے خطر ہ بھی بن سکتی ہیں ۔
روحانی آنکھ جو دیکھتی ہے اس کے مطابق زمین کی ساخت وہ نہیں جس کی نشان دہی مادی علوم کرتے ہیں۔ زمین اپنے مدار پر لٹو کی طرح ترچھی ہوکر چل رہی ہے اور اس کی شکل پپیتے کی طرح ہے۔ جہاں مدار ہے وہاں ایک بڑا علاقہ مخصوص ہے اس بڑے اور مخصوص علاقے میں صاحبانِ تکوین تکوینی امور کے فیصلے طے کرتے ہیں۔ اس ریزرو علاقے Reserve Areaمیں کشش ثقل میں فرق ہونے کی وجہ سے وقت میں بھی کافی فرق ہے۔ روحانی علوم کے مطابق کائنات کی ہر شئے نور یا روشنی کی بساط پر سفر کررہی ہے اور اس مخصوص علاقے کے مطابق وقت کا تعین ہوتا ہے۔ مثلاً برمودا مثلث کے علاقے میں سے اگر کسی صورت فوری طور پر کوئی چیز باہر آجائے تو عام زمین کے وقت میں دس سے بیس منٹ تک کا فرق ہوجائے گا۔ زمان کی نفی کا ذکر قرآن پاک میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔گردش کا قانون یہ ہے کہ جتنی رفتار تیز ہوگی اتنا ہی حرارت میں اضافہ ہوگا۔ برمودا مثلث میں رفتار چونکہ بہت زیادہ ہے۔ اس لئے وہاں جو چیز داخل ہوگئی وہ حرارت میں تحلیل ہو کر روشنی میں تبدیل ہوجائے گی۔
یہ جگہ ماورائے بنفشیٔ شعاعوں کی آماجگاہ ہے۔اس علاقے میں داخل ہوتے ہی انسانی آنکھ کو بہت بڑی شکل کا گول دائرہ نظر آتا ہے اور اس دائرے میں انتہائے نظر تک ایک دوسرے کے اندر چھوٹے چھوٹے دائرے نظر آتے ہیں ان دائروں میں بے انتہا مقناطیسیت اور کشش ہے ۔ جب آپ کی نظر پہلی بار دائرے پر پڑتی ہے تو مسلسل آپ ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں، حتی ٰکہ آپ خود ان دائروں کا ایک حصہ بن کر گم ہو جاتے ہیں۔
یہ چونکہ ماورائے بنفشیٔ شعاعوں کے مقناطیسی دائرے ہیں اس لئے ان میں اتنی کشش اور ماورائی روشنی ہے کہ بڑے سے بڑا جہاز بھی اس دائرے کی حد میں آجائے تو چند لمحوں میں شعاعوں کی مقناطیسی حدت کی وجہ سے تحلیل ہو کر ان دائروں کا حصہ بن جاتا ہے، اور اس کا نام و نشان مٹ جاتا ہے
Subscribe to:
Posts (Atom)