Showing posts with label Nawaz Shareef. Show all posts
Showing posts with label Nawaz Shareef. Show all posts

02 September 2014

تباہی ناگزیر ہے

آج جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، اسلام آباد میں طاہر القادری اور عمران خان کے دھرنے کو اٹھارہ دن ہو چکے ہیں.
عمران خان کا مطالبہ وزیر اعظم نواز  شریف  کا استعفیٰ ہے جبکہ طاہر القادری ایک جامع انقلابی پیکج کی بات کرتے  آئے ہیں جس میں  صوبوں کی  تقسیم، غریبوں کو ارزاں نرخوں پر راشن اور بجلی کی فراہمی، بے روزگاروں کو الاونس اور بلدیاتی انتخابات وغیرہ شامل ہیں،.علاوہ ازیں وہ تکفیریت  کے خاتمے کی بات کرتے ہیں جس کی وجہ سے دیوبندی  حضرات بہت جزبجز ہیں .... اسی وجہ سے میں طاہر القادری کے ایجنڈے کا حامی ہوں کہ وہ ایک جامع اصلاحاتی پیکج کی بات کر رہا ہے
آج مورخہ دو ستمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کی فرمایش پر سینیٹ اور قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس ہو رہا ہے.ن لیگ نے یہ اجلاس بلایا ہے اور اب اس ملک کو نوچ کھسوٹ کر کھانے والے سب لوگ آئین و جمہوریت کی بالادستی کی بات کر رہے ہیں کیونکہ یہ نہیں چاہتے کہ اس ملک میں احتساب کا کوئی نظام آ جائے.ان کی منشا یہی ہے کہ یہی گلا سڑا نظام چلتا رہے جس میں اول تو کسی کو کوئی سزا نہیں ہوتی اور ہو بھی جائے تو صدر کے ایک اشارے سے سات خون معاف ہو جاتے ہیں.
ایل پی جی کے ٹھیکوں سے مال بنانے والا اعتزاز احسن کس لئے جمہوریت کا ساتھ دے رہا ہے ، سب جانتے ہیں.اپنے بھائی کو گورنر بنوانے والا محمود اچکزئی جو کبھی بلوچستان سے پختوں علاقے الگ کر کے ایک نیا صوبہ  بنانے کا مطالبہ کرتا تھا ، وہ  کیوں جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے کسی سے دھکا چھپا نہیں.
ق لیگ تقریباً ختم ہو چکی، پیپلز پارٹی تہیہ کر چکی کہ ہم نے سندھ پر ہی اکتفا کرنا ہے ایسے میں پنجاب اور پختونخواہ کے ہزارہ  ڈویژن کو ن کے حوالے کر دیا گیا ہے.عہد و پیمان باندھ لئے گیۓ ہیں کہ تم ہم سے چشم پوشی کرنا، ہم تم سے کریں گے.مل کر کھائیں پییں گے، اس پاگل عوام کو انہی سیاسی نعروں کا اسیر بنا کر رکھیں گے. ایسے میں تکفیریت اور اس بوسیدہ سیاسی اور انتظامی نظام کے خلاف طاہر القادری آخری آواز ہے.اگر اس کی تحریک کے نتیجے میں یہ نظام تبدیل نہ ہوا. تو عوام کیلئے تباہی ہی تباہی ہے.
سانحہ ماڈل ٹاون کے چودہ قتل کا معاملہ بھی دب جائے گا اور تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے جو کرکنان پنجاب بھر میں قید کر لئے گئے ہیں، ان پر قیامت ڈھائی جائے گی.تکفیریوں کے ایجنڈے پر قائم  یہ حکومت مزید کھل کر اپنا کھیل کھیلے گی.میڈیا کے کچھ بااثر رائے ساز افراد حکومت کی دلالی کرتے رہیں گے اور عوام کو سب اچھا ہونے کا یقین دلاتے رہیں گے اور ملک خدانخواستہ ٹی بی کے مریض کی طرح کھانس کھانس کر مر جائے گا.یقین نہیں آتا تو وہ خبریں پڑھ لیجئے کہ بلوچستان میں داعش کیلئے خیر مقدمی کلمات لکھے جا رہے ہیں، اور پشتو میں داعش کے کتابچے شائع ہو رہے ہیں اور  پشاور میں مقیم افغان مہاجرین میں بانٹے جا رہے ہیں ........  


01 September 2014

ایک &%$# آدمی ....ہاشمی ہاشمی

مجھے جاوید ہاشمی کا کردار مشکوک لگ رہا ہے 
یہ شخص جماعت اسلامی سے چھوڑ کر آمر کے کندھے پر اسمبلی میں آیا 
فوج سے پیسے لے کر اسلامی جمہوری اتحاد میں گیا 
پھر اس تعلق کو نبھانے کیلئے ن لیگ میں گیا 
تحریک انصاف میں گیا تو پھر الزام لگا کہ آئی ایس آئی کی ایما پر گیا ہے 
دھرنے سے پہلے اور دھرنے کے دوران پندرہ دن تک اسے کچھ عجیب یا غلط نہیں لگا 
اچانک اس نے اپنی ہی باتوں کی نفی کرتے ہوئے تحریک انصاف پر فوج سے روابط کا الزام لگا دیا 
اب اس ماضی کے ریکارڈ کی روشنی میں تو اسے جمہوریت کا چمپین یا اصول پسند سیاستدان ہرگز نہیں کہا جا سکتا 
سوال یہ ہے کہ فوج کی نیت ہو کچھ کرنے کی تو دو تین دن ہی کافی ہوتے ہیں، فوج نے سترہ دن سے کچھ نہیں کیا باوجود اس کے کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں آرمی چیف کی بابت جھوٹ بولا اور بار بار ایسا تاثر دیا کہ فوج اس سب کے پیچھے ہے.کچھ دیگر ن لیگی وزرا نے یہ تاثر دیا کہ یہ سب مشرف کیس کی وجہ سے ہے.ایسے حالات میں شریف سے شریف انسان بھی جھنجھلا کر جوابی حملہ کرتا ہے مگر فوج نے ابھی تک یہ نہیں کیا....... اس کا مطلب یہ ہے کہ ن نے کچھ غلطیاں کی ہیں مگر ہاشمی کی صورت میں کم از کم ایک پتا سمجھداری سے کھیل گیۓ ہیں وہ . 
 رہا سوال یہ کہ کیا فوج اسکے پیچھے ہے  تو بھئی فوج نے جب آنا ہوتا ہے تو 'صحت و صفائی کی صورتحال' کا جائزہ لینے کے بہانے بھی آ جاتی ہے تو یہاں تو  چکے ہیں دھرنے کو ، آرمی چیف کے مطلق پارلیمینٹ  میں جھوٹ بولے جا رہے ہیں، پی ٹی  وی پر چند منٹ کیلئے قبضہ ہو گیا، اس قبضے کیلئے آرمی کو الزام دیا گیا مگر آرمی پھر بھی حکومت کو باہر کرنے کیلئے نہیں آئی...... اس سب سے تو یہی لگتا ہے کہ آرمی کا آنے کا کوئی ارادہ نہیں البتہ اگر ان سیاستدانوں نے آرمی کو یونہی چیونٹی کی طرح بار بار کاٹ کر مجبور کیا تو پھر 'کیڑی کو ٹھڈا جائز' کے مصداق آرمی کو آنا پڑے گا 


29 August 2014

تذکرہ سلسلہ شریفاں

سلسلہ شریفیہ  جسے سلسلہ شریفاں  کہا جاتا ہے، پنجاب کا ایک نامور سلسلہ ہو گزرا ہے.اس سلسلے کی بنیاد محمد شریف نامی ایک درویش نے رکھی.موصوف خاندانی طور پر لوہار تھے مگر کچھ اپنی محنت سے اور کچھ بادشاہ وقت، سلطان غرب الہند ضیاء الحق کی مہربانی سے ان کا شمار صنعتکاروں میں ہونے لگا.تمام درویش صفت لوگوں کی طرح انہیں بھی بچوں سے بہت پیار تھا خصوصا  اپنے بچوں سے.اسی لئے حاکم وقت کی مہربانی سے اپنے بڑے  بیٹے کو ریاستی  سیاست میں داخل کروایا حالانکہ صلاحیت اس میں گلی محلے کے نزاعی امور نمٹانے  کی بھی نہ تھی، مگر بس الله والوں کی نظر کا جو منظور ہو جائے، اس کے کیا کہنے.
                                                           
سیاست و روحانیت میں قدم فرما ہونے 


حضرت نواز شریف آف رائونڈ شریف کی ایک خوشگوار موڈ میں یادگار تصویر  
موصوف کے یہ بڑے صاحبزادے  نواز شریف کے نام سے جانے جاتے تھے اور اسم بامسمی  تھے.ناصرف  یہ کہ وہ خود اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے آنے کی بجائے 'نوازے' گئے تھے بلکہ وہ خود بھی نوازنے کی صفت سے مالامال تھے.جب اپنی خود کی الگ جماعت بنائی  اور پہلا الیکشن جیتا تو اپنے چھوٹے بھائی کو سب سے بڑی ریاست کا سربراہ بنایا.
                                                    

حضرت نواز شریف تدبر سے مالامال تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالم با عمل بن گئے مثلا وہ اول خویش  بعد درویش کے مقولے کو جتنی سنجیدگی سے لیتے تھے اور عمل کرتے تھے شاید ہی دنیا کی حالیہ تاریخ میں کسی نے کیا ہو.ان کی حکمت عملی یہ ہوتی تھی کہ اول بھی خویش ، بعد بھی خویش.جود و سخا کا یہ عالم تھا کہ جب کسی کی دعوت کرتے تو دسترخوان پر کم از کم ستر اقسام کے کھانے چنے جاتے اور یہ سارا کھانا وہ لوگ کھاتے جنہوں نے کبھی 'پیٹ بھر' کر نہیں کھایا ہوتا تھا.   
                                                
زمانہ عسرت  میں آپ کے دستر خوان کا ایک منظر 
انتخابی نشان شیر تھا مگر طبیعت میں ملائمت  اور نرمی اس قدر تھی کہ جب آپ کو پابند سلاسل کیا گیا تو مچھروں سے بھی گھبرا جاتے تھے.ان کا خود کا کھانا پینا نہایت سادہ تھا، جو ملتا کھا لیتے اور اگر کچھ نہ ملتا یا کم ملتا تو دوسرے کے سامنے سے اٹھا کر کھا لیتے.انہوں نے اپنی ساری زندگی پیار محبت کا پرچار کیا، نفرت سے بچنے کی تلقین خاص کر ذات پات کی بنیاد پر.ان کی اس تلقین کو ان کی صاحبزادی نے بہت سنجیدگی سے لیا.آپ کی طبیعت میں استغنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.اپنے لئے کچھ بچا نہیں رکھتے تھے، سب کچھ اپنے بچوں کے کاروبار میں لگا دیتے تھے یا دیگر ریاستوں کے پاس امانت رکھوا دیتے تھے.

آپ کی وجہ موت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک دنیا دار قسم کا شخص جو نیازی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا خانقاہ قادریہ کے ایک درویش کے ہمراہ لشکر جمع کر کے دارالخلافہ پہنچا اور آپ سے تخت چھوڑنے کا مطالبہ کرنے لگا.
                                               
دائیں :نیازی سردار
بائیں : خانقاہ قادریہ کا درویش
             


اگرچہ دنیا سے آپ کو کوئی لگاؤ نہیں تھا مگر عوام (جو کہ آپ کے خیال میں آپ کے خلفا اور مریدین پر مشتمل تھی) کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا شرعی طور پر ٹھیک نہیں.آپ خود بھی اسی بات کے قائل تھے.کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بشر خطا کا پتلا ہے، اسی لئے آپ بار بار سیاسی خطاؤں کا ارتکاب کرتے تھے مگر ہمارے نزدیک اس قول کی سند کچھ زیادہ مضبوط نہیں اور سلسلہ  شریفان کے جو وابستگان باقی بچے ہیں، انہوں نے بھی اسے قابل اعتبار نہیں جانا.
                                                   
اپنے مریدین کی محبتوں کا جواب دیتے ہوئے 
    


آخر جب احتجاج حد سے بڑھ گیا تو مملکت کے سپہ سالار نے کاروبار زندگی کو بحال کرنے کی غرض سے آپ سے استعفیٰ مانگا اور انکار پر آپ کو پابند سلاسل کر دیا.
                                             
سپہ سلار جس نے آپ کو پابند سلاسل کروایا 

                                                           
زمانہ اسیری کی ایک تصویر 

آپ پر چند لوگوں کی ہلاکت کا مقدمہ چلا، متعلقہ قاضی نے آپ کو مصلوب کرنے کے احکامات دیے اور یوں آپ  نے اپنا نذرانہ حیات قضا کو پیش کیا. آپ کے بہت سے خلفا تھے جن میں ایک حضرت اسحاق ڈالر اور حضرت شوباز زیادہ مشھور'ہوئے ہیں، ان میں سے موخر الذکر کو بھی آپ کے ساتھ ہی مصلوب کیا گیا.
                                                 
مریدین اور خلیفہ اسحاق ڈالر کے ہمراہ خدا کی بارگاہ میں حاضری دیتے ہوئے 

آپ دونوں حضرات کا مزار رائیونڈ میں ہے.اب بھی سلسلہ شریفاں کی خانقاہیں کہیں کہیں لاہور سے پنڈی کے راستے میں پائی جاتی ہیں 
                                               

مورخہ 
١٠ ستمبر ٢٠٥٠
  

03 December 2013

Tariq Malik's dismissal by PM

Chairman Nab's dismissal reported by Rauf Klasra :

PMLN appointed speaker's relative as acting chairman NAB.Dismissed Tariq Malik for thumb impression verification :


IHC reinstated Tariq Malik.Opposition protested at his dismissal:



My Comments
Sharifs have'nt learnt anything from their past.they used to punish people for obeying law and standard operating proceedures,and they are doing it today as well.A few more months and they'll be unmasked.

19 June 2013

PMLN bribing judges in a technically foolproof way

روزنامہ ایکسپریس 19 جون 2013 
ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس سفری الاؤنس بڑھانے کی کوئی معقول وجہ ہو لیکن ایک ایسے ملک  کے ججز کو 2 سرکاری گاڑیاں رکھنے کی اجازت دینا کہاں کا انصاف ہے ،کہ جس کا خزانہ بقول وزیر اعظم بالکل خالی ہو ؟

PMLN's dual policy regarding luxury tax

روزنامہ ایکسپریس 19 جون 2013 
روزنامہ ایکسپریس 20 جون 2013 

روزنامہ جنگ ٢٠ جون 2013 


جناب چیف جسٹس صاحب نے یکساں لوڈ شیڈنگ کے لئے تو فورا آرڈر جاری کر دیا تھا ،اب لاہور ہائی کورٹ میں بیٹھے اپنے ماتحتوں سے کہیں نا کہ وہ اس پر نوٹس لیں کہ کیوں وزیر اعلی ہاوس اور جاتی عمرہ سمیت ان مقامات کو ٹیکس میں استثنیٰ دیا گیا ہے ،جو حکومتی اراکین یا ان کے دوستوں کی ملکیت ہیں ؟
دوسری طرف خود کو خادم اعلی کہلوانے کے شوقین میاں شہباز شریف کو بھی شرم آنی چاہیے کہ  نہ صرف اپنے اور اپنے یاروں  زرداری  اور ملک ریاض کی رہایش گاہوں کو تو اس ٹیکس سے بچا لیا گیا ہے،بلکہ فوج کی خوشامد کے طور پر کنٹونمنٹ بورڈز کے زیراہتمام علاقوں میں اس کا اطلاق تجویز نہیں کیا گیا ،اور کسی زمانے میں جس وزیر اعلی ہاوس میں انہوں نے یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا تھا ،اس کو بھی مستثنی رکھا گیا ہے اس ٹیکس سے.
کیا یہی غریب پروری ہے نام نہاد خادم اعلی کی ؟  

16 June 2013

Boot licker media

فاروق اقدس صاحب نواز شریف کی مدح سرایی میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہوے ،بحوالہ جنگ سنڈے میگزین 9 جون ٢٠١٣ 





PMLN's performance


روزنامہ جنگ ،مورخہ 16 جون  2013 کی چند خبریں 



Badla hua punjab aur Pakistan ka Paris

یہ سب خبریں مورخہ 16 جون 2013 کے اخبارات میں شایع ہوئیں 

روزنامہ جنگ 
روزنامہ دنیا 



روزنامہ جنگ 

15 June 2013

A brief review of budget and its after effects

یہ سب خبریں 15 جون کے اخبارات میں شایع ہوئیں 
روزنامہ جنگ 


روزنامہ ایکسپریس 

روزنامہ جنگ 

روزنامہ دنیا 

روزنامہ دنیا 

طلعت حسین کا کالم جو ایکسپریس میں شایع ہوا 

12 June 2013

عمران خان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے

اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ انتخابات میں الیکشن کمیشن اور عدلیہ نے واضح طور پر جانبداری کا ثبوت دیا ،مگر اس کے باوجود حزب اختلاف کی سب سے  موثر جماعت یعنی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ابھی تک کوئی ٹھوس موقف نہیں لیا .شروع میں ان کا کہنا تھا کہ پچیس حلقوں میں انگوٹھے کے نشان کی تصدیق کروائی جائے ،پھر یہ مطالبہ کم ہو کر چار حلقوں تک رہ گیا .الکشن کمیشن نے اس مطالبے کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں.
اب سننے میں آ رہا ہے کہ خان صاحب عید کے بعد دھاندلی کے خلاف مہم چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں ،مرے خیال سے تو خان صاحب کو طاہر القادری کا ساتھ دے دینا چاہیے تھا ،اس وقت مگر انہوں نے ان میڈیا اینکرز کی راے کو ترجیح دی جو کبھی ان کے خیر خواہ نہ رہے ،اور چند ایک جو سو وقت خیر خواہ بنا ہوے تھے ،انتخابت کے دوران اور بعد میں ان کی اصلیت سامنے آ گیی .
بہرحال اب اگر خان صاحب دھاندلی کے خلاف تحریک کے اپنے اس بیان سے پھر جاتے ہیں ،تو پھر اگلے انتخابات میں ان کو اس تعداد کا نصف ووٹ  بینک بھی نہیں مل سکے گا،جو ابھی ملا ہے .اگر نوجوانوں نے ان پر اعتماد کیا ہے اور نوجوانوں کے  دیۓ ہے مینڈیٹ کو کسی نے تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے ،تو یہ عمران خان کا فرض ہے کہ وہ نوجوانوں کو یقین دلایں کہ مجھے آپ کے ایک ایک ووٹ کی قدر ہے ،اور میں اس دھاندلی کے خلاف آواز اٹھاوں گا .
جو چیز خان صاحب کر سکتے ہیں ،اور ان کے لئے بہتر بھی ہے ،وہ یہ کہ وہ کم سے کم 15 ستمبر تک انتظار کریں .تب تک ممکنہ طور پر مہنگائی اور بڑھ چکی ہو گی ،عوام حکمت سے بیزار ہو چکی ہو گی ،موسم بھی قدرے بہتر ہو گیا ہو گا ،اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی تشکیل کو ١٠٠ دن گزر چکے ہوں گے .پختونخواہ میں ان کی حکومت بھی کچھ نہ کچھ ٹریلر دکھا چکی ہو گی اپنی پرفارمنس کا .لہذا ١٥ ستمبر کے بعد یا یکم اکتوبر کے بعد دھاندلی کے خلاف تحریک شروع کرنا ان کے لیے ہر حال میں سودمند رہے گا .  بہتر ہو گا کہ وہ دوسری جماعتوں جنہیں انتخابی نتایج پر شدید تحفظات ہیں ،ان کے ساتھ مل کر ملک گیر سول نافرمانی کی تحریک چلایں ،کیونکہ جب عدلیہ ،الیکشن کمیشن اور تمام ریاستی مشینری کسی ایک جماعت یا گروہ کی جانبداری پر تل چکی ہو تو یہی ایک مصر راستہ رہ جاتا ہے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کا .
اور اگر یہ تحریک کامیاب ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ہر بڑے شہر میں ایک تحریر اسکوائر بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں تاکہ ان کرپٹ عناصر کی انے ولی نسلیں بھی اس سبق کو نہ بھول سکیں .

23 December 2012

مک مکا


published in december 2012
published in daily express on 22-12-12 


published on 23-12-12



آخر یہ سب لوگ ایک ہی بات کیوں کر رہے ہیں ؟ کیا واقعی مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی میں مک مکا ہو گیا ہے ؟