ہم میں سے اکثر لوگ اس بات کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہمارے ملک میں قحط الرجال ہے،وہی پرانی چہرے بدل بدل کر سامنے آ جاکیا تے ہیں،لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس کے ذمے دار ہم ہیں.
ہم خود تبدیلی کے حامی نہیں .روزمرّہ معاملات میں ہمارا رویہ اس قسم کا ہوتا ہے جسے پنجابی میں "ڈنگ ٹپاؤ" کہتے ہیں.اس کی ایک بہت چھوٹی اور عام مثال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سی مساجد ایسی ہیں جو آباد ہیں.کچھ نمازی 30 سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے مستقل پنجگانہ نماز ادا کرنے آتے ہیں مساجد میں،لیکن انہی مساجد میں امامت 19 ،20 سال کے نوجوان کرواتے ہیں .اور اچھے خاصے پیرانہ سال نمازی بھی اسی نوجوان کی اقتدا کرکے اپنے کندھے سے فرض اتار رہے ہوتے ہیں کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ امامت کا ذمہ اپنے سر لے لے .بہت سے خطیب حضرا ت غلط روایات اور خلاف حقایق باتیں بہت دھڑلے سے بیان کر جاتے ہیں .میں ایک نہایت ہے احقیر اور گناہگار سا آدمی ہوں لیکن کوشش کرتا ہوں کہ اپنی آنکھیں اور کان کھلا رکھوں اور دماغ کی کھڑکی بھی بند نہ ہونے دوں .تقریبا ہر جمعے کو ایسی روایت سننے کو ملتی ہیں اور میرا خون بھی کھولتا ہے لیکن اندیشہ نقص امن کے تحت خاموش رہتا ہوں .
ایک بار ایک مسجد میں جانے کا اتفاق ہوا.وہاں جا کر دیکھا تو مسجد میں بہت خوبصورت کام کیا گیا تھا ،جس طرح پاک و ہند کی مساجد میں ہوتا ہے.لیکن ایک چیز دیکھ کر دکه ہوا کہ وہاں مذاہب اربعہ کے بانی حضرات کے نام تو لکھے ہوے تھے اور ان کے بعد حضرت علی بن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا صاحب کا نام بھی لکھا تھا ،لیکن حضرت امام جعفر صادق علیھ سلام کا نام وہاں نہیں لکھا گیا تھا .مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ اب ٹوہ جامعہ الازہر نے بھی فقہ جعفریہ کو تسلیم کر لیا ہے،تو انہوں نے مذاہب اربعہ کے ساتھ ان کا نام کیوں نہیں لکھا ؟
خیر بات کو نظر انداز کر دیا میں نے .اسی مسجد میں کسی اور جمعے کو میں نے ایک اور چیز نوٹ کی .خطیب صاحب اپنے جوش خطابت میں انہوں نے کہا "ارے جب میرا داتا (اشارہ حضرت داتا صاحب کی طرف تھا ) یہاں تشریف لے تو یہاں سرے ہندو اور سکھہ آباد تھے ." میں نے سوچا کہ داتا صاحب تو یہاں کچھ 1000 سال قبل آیے تھے اور سکھہ مذہب تو صرف 600 -500 سال پرانا ہے .
مجھے یقین ہے ایسی باتیں ملک کی بیشمار مساجد میں ہوتی ہوں گی ،کچھ مساجد میں تو ایسی ضعیف روآیات بھی بیان کی جاتی ہیں کے جن کے مطابق نعوز باللہ خصوصا حضرت عمر کا مقام نبی صلّی الله علیھ و الھ وسلّم سے بھی بڑھا چڑھا کر دکھایا جاتا ہے،نعوز باللہ ،اور اس چیز کا با قاعدہ دفاع کیا جاتا ہے .کہیں پر حضرت غوث اعظم سرکار کا مقام صحابیوں اور ائمہ سے بڑھا کر دکھایا جاتا ہے ،لیکن عوام بھی سنتی ہے چپ کر کے،کوئی اختلاف نہیں کرتا .کسی میں اتنی ہمّت نہیں.اگر کوئی ایک آدھا ہمّت کر ہی لے تو اس کو گستاخ قرار دے دیا جاتا ہے،اور عوام بھی ساری مولوی صاحب کی تایید کرتی ہے .یہ ہے قحط الرجال کی وجہ .جب ہم اختلافات کو علمی طورپر حل کرنا سیکھ لیں گے ،تو قحط االرجال ختم ہو جائے گا .جب ہم ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بجاے خود آگے نکلنا سیکھ لیں گے،تو مثلا حل ہو جائے گا.
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم تقلید پسند مولویوں کے غلام بن گئے ہیں ،ہم نے علمی اور ذہنی ارتقا نہیں کیا،ہمیں دوزخ سے اتنا ڈرایا جاتا ہے کے ہم میں سے کوئی نماز کی امامت کروانا اس خوف سے پسند نہیں کرتا کہ کہیں اس کی غلطی سے باقی لوگوں کی جماعت نہ ناقص ہو جائے،خواہ کوئی نوجوان امام مسجد جو بھی غلطی کرے .
ہم میں سے ہر آدمی اپنے حال کی اصلاح کے لئے سرکارپہ بھروسہ کرتا ہے کسی کو خود ہاتھ پیر ہلانے کی توفیق نہیں ہوتی .ہم لوگ ایک لیپ ٹاپ ،ایک ہیلمٹ ،یا 1000 ماہانہ پہ ووٹ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ،یہ نہیں سوچتے کہ ہماری اس حماقت سے وہی لوگ دوبارہ بار سر اقتدار ہیں گے اور آ کر کہیں گے کہ ہم اس گند کو پانچ سال میں نہیں سمیٹ سکتے جو پچھلی حکومت نے پھیلایا ہے .ہمارے اندر عدم برداشت اس حد تک بڑھ گیی ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان اس وقت مرنے مارنے پہ آمد ہو جاتے ہیں جب کوئی آدمی ان کے سیاسی رہنما یا قاید پر اعتراض کرے.ہر جماعت کا کارکن اپنے رہنما کو پاک صاف دودھ کا دھلا دیکھتا ہے.اختلاف کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی اس کی نظر میں.کچھ ارسا پہلے ایک پروگرام دیکھا جس میں کامران شاھد ملتان میں یوسف رضا گیللانی کے حلقہ میں گیا.وھاں ایک معقول نوجوان سے پوچھا کہ آپ علی موسیٰ گیللانی کے مقابلے میں کھڑے کیوں نہیں ہو جاتے انتخابات میں ؟اس نے جواب دیا کے ہماری تو اتنی اوقات ہی نہیں ہے.یہ ہے ہماری ذہنی غلامی کی گہرائی .
اگر قحط الرجال سے نکلنا ہے تو ہمیں باطل سے،جھوٹ سے اختلاف کرنا ہو گا اور اختلاف کو برداشت کرنا ہو گا،چاہے اختلاف مذہبی ہو،سیاسی ہو،یا لسانی .ہمیں خود کو قیادت سنبھالنے کے اہل بنانا ہے،اور خود کو تیار کرنا ہے قیادت سنبھالنے کے لئے. جب تک ہم روایتی قیادت پہ انحصار کرتے رہیں گے، انقلاب کا خواب صرف ایک خواب ہی رہے گا.
No comments:
Post a Comment