چند دن پہلے خبر سنی کہ سنی اتحاد کونسل نے مسلم لیگ قاف کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے انتخابات کے لئے تو بہت افسوس ہوا.افسوس تو اس وقت بھی ہوا تھا جب نواز شریف نے پنجاب میں اپنے وزیر قانون رانا ثنا الله کو کلعدم سپہ صحابہ کے احمد لدھیانوی کے ساتھ جلسہ کرنے پر بھی کچھ نہیں کہا تھا اور سپہ صحابہ کے نیے روپ تنظیم اہل سنّت والجماعت کی ریلی کی حمایت کی تھی
یہ ہمارے ہاں کا اب ایک المیہ بن چکا ہے کے جماعتیں نعرہ تو نظام مصطفیٰ کا لگاتی ہیں لکن پانچ سال انہی اسسیمبلیوں میں گزرتی ہیں اتحاد کر کے جن سے عالم کفر یعنی امریکا سے امداد کی وصولی کے بل منظر ہوتے ہیں
چند سال قبل ایک واقعہ سنا تھا کے ہمارے ہاں کے ایک بہت نامی مولانا صاحب امریکا تشریف لے گئے . وہاں جناب کو کسی نے گھاس نہ ڈالی .صرف ایک سینیٹر سے ملاقات ہو سکی وہ بھی اس کے گھر میں موصوف نے ان سے ان کے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی اور نماز پڑھی بھی (یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر وہی سینیٹر پاکستان میں ان کے گھر آ کر یسوع کو یاد کرنا چاہتا اپنے طریقے سے تو کیا مولانا اسے اجازت دیتے؟ یہ مولانا پاکستان آ کر یہ پروپیگنڈا کرتے رہے کہ جی ہم تو کفر کے گھر میں نماز پڑھ کر اہے ہیں
یہ واقعہ بیان کرنے کا یہاں مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ جو اوم کو مذہب کے نام پہ بیوقوف بناتے ہیں کیا ملک کو سنبھالنے کے اہل ہیں؟
ابھی کچھ ہی دیر پہلے احسان الہی ظہیر کی ای بک پڑھ رہا تھا جس میں بریلوی
مسلک کے بانی احمد رضا خان بریلوی کا نہایت برے طریقے سے مذاق اڑایا گیا تھا .اور افسوس کی بات یہ ہے کے موصوف کا بیٹا ابتسام الہی جمیعت اہل حدیث کا عہدے دار ہے اور کبھی اس نے آ کر اپنے باپ کے اس فعیل کی مذمّت نہیں کی ہمیشہ خالی باتیں ہی کی ہیں
یہاں المیہ یہ ہے کہ سب اپنے پیٹ کی پوجا میں مصروف ہیں .وہابی اور دیوبندی
شیعہ اور بریلوی لوگوں کو کافر کہتے ہیں .بریلوی شیعہ اور دیوبندیوں کو گستاخ اور بے ادب کہتے ہیں دیوبندی وہبیوں کو نجدی کہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں ال غرض ہر طرف تکفیر چل رہی ہے. اور ہر مسلک کے اندر آپسی لڑائیاں بھی چل رہی ہیں مثلا ڈاکٹر طاہر ال قادری جنہیں ایک دنیا جانتی ہے انکو ان ہی کے مسلک کے لوگ گمراہ قرار دیتے ہیں
کیا یہ لوگ ملک سنبھالنے کے اہل ہیں؟
سب سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے ک ایم ایم اے دوبارہ بھال ہو گی ہے اور ایک دوسرے کو گستاخ اور کافر کہنے والے پھر سے سیاسی مفاد کے لئے اکٹھے ہو گئے ہیں کچھ لوگوں نے اسی تنظیمیں بھی بنایی ہیں جو بظاھر سب کے لئے لگتی ہیں لکن دار حقیقت کسی ایک مسلک کی بالادستی کے لئے کام کر رہی ہیں جیسے مجلس وحدت المسلمین جو شیعہ مسلک کی بالادستی کے لئے سرگرم ہے ایسی ہی ایک تنظیم ہے حزب تحریر .جو دار اصل تو خلافت کے لئے سرگرم ہے لکن اس کے کچھ ارکان شیعہ نسل کشی میں ملوث پاے گئے ہیں
جماعت اسلامی کے پر تشدّد کردار سے تو سب واقف ہیں ہی مگر افسوس کی با
ت یہ ہے کہ نواز شریف جیسا سیاستداں ان سے اتحاد کی بات کر رہا ہے تبدیلی کا نشان عمران خان طالبان کے لئے ہنرم گوشہ رکھتا ہے .الغرض یہ کہ مذہب کے نام پہ لوگوں کو بہلانا پھسلا نا سب کی مجبوری ہے اور ہر لیڈر اس مجبوری کا شکار ہو رہا ہے
اور وجہ اس کی صرف ایک ہے.وہ یہ کہ ہم نے مذہب کو ایک ممنوع' شے بنا دیا ہے. ہم نے اپنے آپ پی خود حرام کر لیا ہے ہے کہ ہم نے مذہب میں غور و فکر نہیں کرنا ہم نے تاریخ اسلام نہیں پڑھنی ہم نے تفسسر اور ہدیتہ نہیں پڑھنی ہم نے تصوّف کی کتاب نہیں پڑھنی کیوں کہ اگر ہم نے پڑھنے کی کوشش کی تو ہم کسی غلطی کی بنا پر کافر نہ ہو جاہیں بدداتی نہ ہو جائے مشرک نہ ہو جاہیں ہمارے گلی محلے کے مولوی صاحبان نے بھی یہی سنا سنا کر ہمیں اس بات پی راسخ کر دیا ہے اور ہمیں عشق نبی اور عشق صحابہ کا درس دے دے کر اتنا جنونی کر دیا ہے کہ ہم ان دلیلوں کو بھی رد کر دیتے ہیں جو ہماری اپنی کتاب سے ہوں کسی اور مسلک سے نہیں ہم ذرا ذرا سی بات پر کسی پہ کفر کا فتویٰ لگا دیتے ہیں ہم رحمت للعالمین کی امّت ہو کر اپنے اندر برداشت پیدا نہیں کر سکتے اور اسی بات کو ہمارے مولوی صاحبان استمال کر کے ہمارا استحصال کرتے ہیں اور میں نے خود اپنی آنکھوں سے اسے لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے اسلامیات میں ایم اے کر رکھا تھا مگر تاریخ اسلام سے نا واقف تھے جب کوئی واقعہ تاریخ سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کے یہ ہماری تاریخ میں نہیں ہے
اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ مولویوں کاا و عظ سن کر دوسروں سے نفرت پال لیتے ہیں
اس کا ایک حل تو وہ تھا جو پرویز مشرّف نے تجویز کیا تھا یعنی ان رجسٹرڈ مدراسسوں کو بند کر دیا جائے لکن چونکہ اس سے فتنہ پرور مولویوں کے اپٹ پہ لات پڑتی تھی لہذا اس کی مخالفت کی گیئ اور نہ صرف ان رجسٹرڈ مدرسے کام کر رہے ہیں بلکہ اسے مولویوں کی کھیپپ پیدا کر رہے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے ایسے ہے کچھ مدرسے پکڑے گئے تھے ماضی میں جن میں طلبہ کو اسکری تربیت دی جاتی تھی
خیر دوسرا حل یہ ہے کہ ملک کو ترکی کی طرح کا سیکولر کا ملک بنا دیا جائے ویسا نہیں جیسا وہ 1924 میں تھا بلکہ ویسا جیسا اب ہے حقیقت یہی ہے کے سیکولر ممالک ترقی میں بہت آگے ہیں کیونکہ اگرچہ اسلام اقلیتوں کو برابر حقوق کی ضمانت دیتا ہے لکن فی زمانہ یہ ممکن نہیں کہ کسی ملک میں کسی مذہب کی بالادستی ہو اور وہاں اقلیتوں کو برابر حقوق حاصل ہوں اس کی وجہ مذھب کے پیروکاروں کا اپنے مذھب کی اصل تعلیمات سے انحراف ہے جب ملک سیکولر بن اجے گا تو کسی میں احساس کمتری نہیں رہے گا،سب ملک کترققیکے لئے زیادہ سے زیادہ کوشسه کریں گے اور فایدہ ملک کو ہو گا. انڈیا بھی ایک سیکولر ملک ہے وہاں کی حکومت سیکولر ہونے کے باوجود مسلمان حاجیوں کو 32000 کی سبسڈی دیتی ہے حج پہ ترکی بھی ایک سیکولر ملک ہے لیکن ایشیا کی دوسری بڑی ابھرتی ہی معیشیت بھی ہے سیکولر ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دین پہ عمل سے روک دیا جائے گا بلکہ یہ ہے کے ہر ایک کو اپنے نظریات رکھنے کی آزادی ہو گی
اگرچہ یہ حل مشکل نظر آتا ہے پاکستان کے تناظر میں لکن بتدریج اس کو رأیج کیا جا سکتا ہے اگر سیاسی جماعتیں خود مل کر متفققہ طور پی کر لیں تو فبہا اگر نہ کریں تو شاید کبھی کوئی خاکی والا اس کو رایج کر دے جیسے مصطفیٰ کمال نے کیا تھا.بہرحال حل یہی ہے ان نفرتوں کو مٹانے کا .اس کے علاوہ کوئی حل بظاھر موجود نہیں ہے
یہ ہمارے ہاں کا اب ایک المیہ بن چکا ہے کے جماعتیں نعرہ تو نظام مصطفیٰ کا لگاتی ہیں لکن پانچ سال انہی اسسیمبلیوں میں گزرتی ہیں اتحاد کر کے جن سے عالم کفر یعنی امریکا سے امداد کی وصولی کے بل منظر ہوتے ہیں
چند سال قبل ایک واقعہ سنا تھا کے ہمارے ہاں کے ایک بہت نامی مولانا صاحب امریکا تشریف لے گئے . وہاں جناب کو کسی نے گھاس نہ ڈالی .صرف ایک سینیٹر سے ملاقات ہو سکی وہ بھی اس کے گھر میں موصوف نے ان سے ان کے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی اور نماز پڑھی بھی (یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر وہی سینیٹر پاکستان میں ان کے گھر آ کر یسوع کو یاد کرنا چاہتا اپنے طریقے سے تو کیا مولانا اسے اجازت دیتے؟ یہ مولانا پاکستان آ کر یہ پروپیگنڈا کرتے رہے کہ جی ہم تو کفر کے گھر میں نماز پڑھ کر اہے ہیں
یہ واقعہ بیان کرنے کا یہاں مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ جو اوم کو مذہب کے نام پہ بیوقوف بناتے ہیں کیا ملک کو سنبھالنے کے اہل ہیں؟
ابھی کچھ ہی دیر پہلے احسان الہی ظہیر کی ای بک پڑھ رہا تھا جس میں بریلوی
مسلک کے بانی احمد رضا خان بریلوی کا نہایت برے طریقے سے مذاق اڑایا گیا تھا .اور افسوس کی بات یہ ہے کے موصوف کا بیٹا ابتسام الہی جمیعت اہل حدیث کا عہدے دار ہے اور کبھی اس نے آ کر اپنے باپ کے اس فعیل کی مذمّت نہیں کی ہمیشہ خالی باتیں ہی کی ہیں
یہاں المیہ یہ ہے کہ سب اپنے پیٹ کی پوجا میں مصروف ہیں .وہابی اور دیوبندی
شیعہ اور بریلوی لوگوں کو کافر کہتے ہیں .بریلوی شیعہ اور دیوبندیوں کو گستاخ اور بے ادب کہتے ہیں دیوبندی وہبیوں کو نجدی کہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں ال غرض ہر طرف تکفیر چل رہی ہے. اور ہر مسلک کے اندر آپسی لڑائیاں بھی چل رہی ہیں مثلا ڈاکٹر طاہر ال قادری جنہیں ایک دنیا جانتی ہے انکو ان ہی کے مسلک کے لوگ گمراہ قرار دیتے ہیں
کیا یہ لوگ ملک سنبھالنے کے اہل ہیں؟
سب سے زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے ک ایم ایم اے دوبارہ بھال ہو گی ہے اور ایک دوسرے کو گستاخ اور کافر کہنے والے پھر سے سیاسی مفاد کے لئے اکٹھے ہو گئے ہیں کچھ لوگوں نے اسی تنظیمیں بھی بنایی ہیں جو بظاھر سب کے لئے لگتی ہیں لکن دار حقیقت کسی ایک مسلک کی بالادستی کے لئے کام کر رہی ہیں جیسے مجلس وحدت المسلمین جو شیعہ مسلک کی بالادستی کے لئے سرگرم ہے ایسی ہی ایک تنظیم ہے حزب تحریر .جو دار اصل تو خلافت کے لئے سرگرم ہے لکن اس کے کچھ ارکان شیعہ نسل کشی میں ملوث پاے گئے ہیں
جماعت اسلامی کے پر تشدّد کردار سے تو سب واقف ہیں ہی مگر افسوس کی با
ت یہ ہے کہ نواز شریف جیسا سیاستداں ان سے اتحاد کی بات کر رہا ہے تبدیلی کا نشان عمران خان طالبان کے لئے ہنرم گوشہ رکھتا ہے .الغرض یہ کہ مذہب کے نام پہ لوگوں کو بہلانا پھسلا نا سب کی مجبوری ہے اور ہر لیڈر اس مجبوری کا شکار ہو رہا ہے
اور وجہ اس کی صرف ایک ہے.وہ یہ کہ ہم نے مذہب کو ایک ممنوع' شے بنا دیا ہے. ہم نے اپنے آپ پی خود حرام کر لیا ہے ہے کہ ہم نے مذہب میں غور و فکر نہیں کرنا ہم نے تاریخ اسلام نہیں پڑھنی ہم نے تفسسر اور ہدیتہ نہیں پڑھنی ہم نے تصوّف کی کتاب نہیں پڑھنی کیوں کہ اگر ہم نے پڑھنے کی کوشش کی تو ہم کسی غلطی کی بنا پر کافر نہ ہو جاہیں بدداتی نہ ہو جائے مشرک نہ ہو جاہیں ہمارے گلی محلے کے مولوی صاحبان نے بھی یہی سنا سنا کر ہمیں اس بات پی راسخ کر دیا ہے اور ہمیں عشق نبی اور عشق صحابہ کا درس دے دے کر اتنا جنونی کر دیا ہے کہ ہم ان دلیلوں کو بھی رد کر دیتے ہیں جو ہماری اپنی کتاب سے ہوں کسی اور مسلک سے نہیں ہم ذرا ذرا سی بات پر کسی پہ کفر کا فتویٰ لگا دیتے ہیں ہم رحمت للعالمین کی امّت ہو کر اپنے اندر برداشت پیدا نہیں کر سکتے اور اسی بات کو ہمارے مولوی صاحبان استمال کر کے ہمارا استحصال کرتے ہیں اور میں نے خود اپنی آنکھوں سے اسے لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے اسلامیات میں ایم اے کر رکھا تھا مگر تاریخ اسلام سے نا واقف تھے جب کوئی واقعہ تاریخ سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کے یہ ہماری تاریخ میں نہیں ہے
اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ مولویوں کاا و عظ سن کر دوسروں سے نفرت پال لیتے ہیں
اس کا ایک حل تو وہ تھا جو پرویز مشرّف نے تجویز کیا تھا یعنی ان رجسٹرڈ مدراسسوں کو بند کر دیا جائے لکن چونکہ اس سے فتنہ پرور مولویوں کے اپٹ پہ لات پڑتی تھی لہذا اس کی مخالفت کی گیئ اور نہ صرف ان رجسٹرڈ مدرسے کام کر رہے ہیں بلکہ اسے مولویوں کی کھیپپ پیدا کر رہے ہیں جو منبر پر بیٹھ کر فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے ایسے ہے کچھ مدرسے پکڑے گئے تھے ماضی میں جن میں طلبہ کو اسکری تربیت دی جاتی تھی
خیر دوسرا حل یہ ہے کہ ملک کو ترکی کی طرح کا سیکولر کا ملک بنا دیا جائے ویسا نہیں جیسا وہ 1924 میں تھا بلکہ ویسا جیسا اب ہے حقیقت یہی ہے کے سیکولر ممالک ترقی میں بہت آگے ہیں کیونکہ اگرچہ اسلام اقلیتوں کو برابر حقوق کی ضمانت دیتا ہے لکن فی زمانہ یہ ممکن نہیں کہ کسی ملک میں کسی مذہب کی بالادستی ہو اور وہاں اقلیتوں کو برابر حقوق حاصل ہوں اس کی وجہ مذھب کے پیروکاروں کا اپنے مذھب کی اصل تعلیمات سے انحراف ہے جب ملک سیکولر بن اجے گا تو کسی میں احساس کمتری نہیں رہے گا،سب ملک کترققیکے لئے زیادہ سے زیادہ کوشسه کریں گے اور فایدہ ملک کو ہو گا. انڈیا بھی ایک سیکولر ملک ہے وہاں کی حکومت سیکولر ہونے کے باوجود مسلمان حاجیوں کو 32000 کی سبسڈی دیتی ہے حج پہ ترکی بھی ایک سیکولر ملک ہے لیکن ایشیا کی دوسری بڑی ابھرتی ہی معیشیت بھی ہے سیکولر ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دین پہ عمل سے روک دیا جائے گا بلکہ یہ ہے کے ہر ایک کو اپنے نظریات رکھنے کی آزادی ہو گی
اگرچہ یہ حل مشکل نظر آتا ہے پاکستان کے تناظر میں لکن بتدریج اس کو رأیج کیا جا سکتا ہے اگر سیاسی جماعتیں خود مل کر متفققہ طور پی کر لیں تو فبہا اگر نہ کریں تو شاید کبھی کوئی خاکی والا اس کو رایج کر دے جیسے مصطفیٰ کمال نے کیا تھا.بہرحال حل یہی ہے ان نفرتوں کو مٹانے کا .اس کے علاوہ کوئی حل بظاھر موجود نہیں ہے
No comments:
Post a Comment