04 June 2013

برمودا تکون (ٹرایی اینگل ) کی حقیقت

سلام .قارئین آپ نے برمودا تکون کے بارے میں بہت کچھ سنا ہو گا ،آج آپ کو برمودا تکون کی حقیقت کے متعلق خواجہ شمس الدین عظیمی کا موقف بتاتے ہیں،جو روحانی ڈائجسٹ میں شایع  ہو چکا ہے .ذیل میں یہ اقتباس نقل کیا جا رہا ہے :


خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں کہ برمودا ٹرائی اینگل کا علاقہ ایسی روشنیوں کا مجموعہ ہے، جسے انسانی آنکھ جذب نہیں کرسکتی۔ عام روشنی کو انسانی آنکھ دیکھ کے جذب کر لیتی ہے، لیکن برمودا ٹرائی اینگل میں پائی جانے والی روشنیاں بنفشیٔ شعا عوں سے بھی زیادہ لطیف ہیں۔ ان شعاعوں کی ایک جھلک ہی انسانی آنکھ کو خیرہ کر دیتی ہے۔  انسانی جسم رنگ اور روشنیوں کا مرکب ہے ۔اس لئے جب کوئی ذی روح اس علاقے میں داخل ہوتا ہے تو اس کے جسم میں پائی جانے والی روشنی ان لطیف بنفشیٔ روشنیوں میں تحلیل ہو جاتی ہے اس طرح اس کی مادّی حالت بھی تبدیل ہو جاتی ہے، جس طرح اگر سورج نکل آئے تو تمام مصنوعی روشنیاں ماند پڑجاتی ہیں۔


یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جدید دنیا میں روشنی کی شعاعیں یا نور کی دریافت قسمیں بہت تھوڑی ہیں۔ پچیس نہیں تو تیس ہوں گی۔ جیسے الفاریز، گاما ریز، بی ٹا ریز، الیکٹرک ریز، لیزر ، پروٹون ریز اور ریڈی ایشن وغیرہ…. یعنی ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کے انوار کو سمجھنے کا علم محدود ہے۔ جبکہ روحانی علوم کے ماہرین انوار کی اقسام ایک لاکھ چالیس ہزاربتاتے ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ستر ہزار حجابات نوری اور اتنے ہی ناری ہیں۔ ناری سے مراد تخریبی انرجی اور نوری تعمیری انرجی ہے۔اس کے ساتھ جب ہم الیکٹرسٹی  کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں بھی بیک وقت تعمیری اور تخریبی صلاحیتیں کام کررہی ہیں۔ یہ صلاحیتیں انسانوں کی فلاح و بہبود میں بھی استعمال ہوتی ہیں اور شاک SHOCK کی صورت میں ان کے لئے خطر ہ بھی بن سکتی ہیں ۔


روحانی آنکھ جو دیکھتی ہے اس کے مطابق زمین کی ساخت وہ نہیں جس کی نشان دہی مادی علوم کرتے ہیں۔ زمین اپنے مدار پر لٹو کی طرح ترچھی ہوکر چل رہی ہے اور اس کی شکل پپیتے کی طرح ہے۔ جہاں مدار ہے وہاں ایک بڑا علاقہ مخصوص ہے اس بڑے اور مخصوص علاقے میں صاحبانِ تکوین تکوینی امور کے فیصلے طے کرتے ہیں۔ اس ریزرو علاقے Reserve Areaمیں کشش ثقل میں فرق ہونے کی وجہ سے وقت میں بھی کافی فرق ہے۔ روحانی علوم کے مطابق کائنات کی ہر شئے نور یا روشنی کی بساط پر سفر کررہی ہے اور اس مخصوص علاقے کے مطابق وقت کا تعین ہوتا ہے۔ مثلاً برمودا مثلث کے علاقے میں سے اگر کسی صورت فوری طور پر کوئی چیز باہر آجائے تو عام زمین کے وقت میں دس سے بیس منٹ تک کا فرق ہوجائے گا۔ زمان کی نفی کا ذکر قرآن پاک میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔گردش کا قانون یہ ہے کہ جتنی رفتار تیز ہوگی اتنا ہی حرارت میں اضافہ ہوگا۔ برمودا مثلث میں رفتار چونکہ بہت زیادہ ہے۔ اس لئے وہاں جو چیز داخل ہوگئی وہ حرارت میں تحلیل ہو کر روشنی میں تبدیل ہوجائے گی۔


یہ جگہ ماورائے بنفشیٔ شعاعوں کی آماجگاہ ہے۔اس علاقے میں داخل ہوتے ہی انسانی آنکھ کو بہت بڑی شکل کا گول دائرہ نظر آتا ہے اور اس دائرے میں انتہائے نظر تک ایک دوسرے کے اندر چھوٹے چھوٹے دائرے نظر آتے ہیں ان دائروں میں بے انتہا مقناطیسیت اور کشش ہے ۔ جب آپ کی نظر پہلی بار دائرے  پر پڑتی ہے  تو مسلسل آپ ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں، حتی ٰکہ آپ خود ان دائروں کا ایک حصہ بن کر گم ہو جاتے ہیں۔


یہ  چونکہ ماورائے بنفشیٔ شعاعوں کے  مقناطیسی دائرے ہیں اس لئے ان میں اتنی کشش اور ماورائی روشنی ہے کہ بڑے سے بڑا جہاز بھی اس دائرے کی حد میں آجائے تو چند لمحوں میں شعاعوں کی مقناطیسی حدت کی وجہ سے تحلیل ہو کر ان دائروں کا حصہ بن جاتا ہے، اور اس کا نام و نشان مٹ جاتا ہے

No comments:

Post a Comment