یہ آج سے 2 سل قبل کا واقعہ ہے کہ ماہ رمضان میں دنیا ٹی وی پر لیلتہ القدر کی ٹرانسمیشن چل رہی تھی ،انیق احمد میزبان تھے اور خانم طیبہ بخاری مہمان کی حثیت سے مدعو تھیں .انیق احمد صاحب نے سوال کیا کہ سورہٴ قدر میں جو ہزار راتوں کا ذکر ہے ،کیا اس سے مرد ٹھیک ہزار راتیں ہے ہیں یا ہزارہا راتیں ہیں ؟تو خانم نے جواب دیا کہ ہزارہا راتیں مراد ہیں ،کیونکہ عربی اسلوب کے مطابق کسی زھیز کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اسی طرح کا اسلوب استعمال کیا جاتا ہے .کچ اسی طرح کی چیز میں نے طفیل ہاشمی نامی ایک صاحب سے بھی سن رکھی تھی ،جو پی ٹی وی پر نمودار ہونے کا شرف بھی رکھتے تھے اور جن کے مطابق حضرت داؤد علی نبینا و علیہ سلام لوہا بھٹی میں گرم کرتے تھے،ان کے ہاتھ میں آ کر معجزے کے طور پر لوہا نرم نہیں ہوتا تھا .خیر اس وقت تو میں نے بھی یہی سوچا کہ پروردگار کی لا محدود رحمت کو ایک عدد تک محدود کرنا مناسب نہیں .
لیکن کل رات جب میں سونے کے لئے لیٹا تو خیالات کا رخ اس جانب نکل گیا .سوچتے سوچتے اچانک ایک خیال آیا کہ اگر خانم طیبہ کی بات کو پرکھا جائے تو وہ غلط نظر آتی ہے کیونکہ جس اسلوب کی وہ بات کر رہی تھیں وہ تقریبا ویسے ہی اردو میں بھی رایج ہے ،مثلا اگر میں کسی کو 4 ،3 بار کہوں کہ فلاں کام کر دو میرا ،اور وہ نہ کرے تو میں اسے جتانے کے لئے کہوں گا کہ میں پچاس بار کہہ چکا ہوں یہ کام کرنے کے لئے.لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اس اسلوب کے مطابق اصل نمبر یا تعداد کم ہوتی ہے اور مبالغہ کر کے اسے زیادہ بیان کیا جاتا ہے .یہ اسلوب سورہٴ قدر پر لاگو کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ اصل میں شب قدر کی فضیلت نعوزباللہ ہزار راتوں سے بھی کم ہے ،اور محض اس کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے 1000 کا عدد استعمال کیا گیا ہے .
رہی بات ایک عدد تک محدود کرنے کی ،تو یہ بات تو بہرحال مسلّم ہے کہ اعداد کی اپنی اہمیت ہے ورنہ قرآن میں اصحاب کہف کے 309 سال کی نیند کا ذکر نہ ہوتا ،موسیٰ علی نبینا و علیہ سلام کی قوم کے 12 سرداروں کا ذکر نہ ہوتا وغیرہ وغیرہ .
لہذا اب میرا یہ ماننا ہے کہ ہزار راتوں سے مراد سورہٴ قدر میں ٹھیک ہزار راتیں ہی ہیں
No comments:
Post a Comment