12 June 2013

عمران خان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے

اگرچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ انتخابات میں الیکشن کمیشن اور عدلیہ نے واضح طور پر جانبداری کا ثبوت دیا ،مگر اس کے باوجود حزب اختلاف کی سب سے  موثر جماعت یعنی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ابھی تک کوئی ٹھوس موقف نہیں لیا .شروع میں ان کا کہنا تھا کہ پچیس حلقوں میں انگوٹھے کے نشان کی تصدیق کروائی جائے ،پھر یہ مطالبہ کم ہو کر چار حلقوں تک رہ گیا .الکشن کمیشن نے اس مطالبے کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں.
اب سننے میں آ رہا ہے کہ خان صاحب عید کے بعد دھاندلی کے خلاف مہم چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں ،مرے خیال سے تو خان صاحب کو طاہر القادری کا ساتھ دے دینا چاہیے تھا ،اس وقت مگر انہوں نے ان میڈیا اینکرز کی راے کو ترجیح دی جو کبھی ان کے خیر خواہ نہ رہے ،اور چند ایک جو سو وقت خیر خواہ بنا ہوے تھے ،انتخابت کے دوران اور بعد میں ان کی اصلیت سامنے آ گیی .
بہرحال اب اگر خان صاحب دھاندلی کے خلاف تحریک کے اپنے اس بیان سے پھر جاتے ہیں ،تو پھر اگلے انتخابات میں ان کو اس تعداد کا نصف ووٹ  بینک بھی نہیں مل سکے گا،جو ابھی ملا ہے .اگر نوجوانوں نے ان پر اعتماد کیا ہے اور نوجوانوں کے  دیۓ ہے مینڈیٹ کو کسی نے تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے ،تو یہ عمران خان کا فرض ہے کہ وہ نوجوانوں کو یقین دلایں کہ مجھے آپ کے ایک ایک ووٹ کی قدر ہے ،اور میں اس دھاندلی کے خلاف آواز اٹھاوں گا .
جو چیز خان صاحب کر سکتے ہیں ،اور ان کے لئے بہتر بھی ہے ،وہ یہ کہ وہ کم سے کم 15 ستمبر تک انتظار کریں .تب تک ممکنہ طور پر مہنگائی اور بڑھ چکی ہو گی ،عوام حکمت سے بیزار ہو چکی ہو گی ،موسم بھی قدرے بہتر ہو گیا ہو گا ،اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی تشکیل کو ١٠٠ دن گزر چکے ہوں گے .پختونخواہ میں ان کی حکومت بھی کچھ نہ کچھ ٹریلر دکھا چکی ہو گی اپنی پرفارمنس کا .لہذا ١٥ ستمبر کے بعد یا یکم اکتوبر کے بعد دھاندلی کے خلاف تحریک شروع کرنا ان کے لیے ہر حال میں سودمند رہے گا .  بہتر ہو گا کہ وہ دوسری جماعتوں جنہیں انتخابی نتایج پر شدید تحفظات ہیں ،ان کے ساتھ مل کر ملک گیر سول نافرمانی کی تحریک چلایں ،کیونکہ جب عدلیہ ،الیکشن کمیشن اور تمام ریاستی مشینری کسی ایک جماعت یا گروہ کی جانبداری پر تل چکی ہو تو یہی ایک مصر راستہ رہ جاتا ہے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کا .
اور اگر یہ تحریک کامیاب ہو جائے تو اس کے نتیجے میں ہر بڑے شہر میں ایک تحریر اسکوائر بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں تاکہ ان کرپٹ عناصر کی انے ولی نسلیں بھی اس سبق کو نہ بھول سکیں .

No comments:

Post a Comment