11 December 2012

پنجاب حکومت کی ٹرانسپورٹ پالیسی کا تنقیدی جایزہ

کچھ عرصے سے خبروں میں ریپڈ بس پروجیکٹ کا بہت چرچا ہے .یہ پروجیکٹ تقریباً 8 ماہ سے جاری ہے اور ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا -خبر تو یہ بھی ہے کہ اس پروجیکٹ پر 70 ارب روپے لگ چکے ہیں اب تک -
جب کہ پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک اس پی صرف ٢٣ ارب لگے ہیں اور کل اخراجات کا تخمینہ 27 ارب ہے .

اگر یہ 70 ارب والی بات صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کے پنجاب کا تقریبا آدھا بجٹ صرف ایک پروجیکٹ پے لگا دیا گیا ،جس کا فایدہ صرف یہ ہو گا کہ 2000 ،3000 لوگوں کا سفر کا وقت آدھا رہ جائے گا .کیا 70 ارب روپے صرف اس لئے خرچ کر دینا کے روزانہ 2000 ،3000 لوگوں کے 20 ،25 منٹ بچ سکیں ،کیا یہ عقل کے  تقاضوں کے منافی نہیں؟

پنجاب حکومت نے جوش میں آ کر یہ اعلان  بھی کیا ہے کہ پہلے ماہ اس بس میں سفر بالکل مفت ہو گا ،جبکہ افواہ ہے کے بعد میں بس کا کرایہ 40 روپے فلیٹ ہو گا یعنی ہر سواری سے اس کی منزل سے قطع نظر 40 روپے کرایہ لیا جائے گا .

میں چونکہ ایک عرصے تک خود بھی لاہور کی بسوں میں سفر کرتا رہا ہوں ،لہذا میں جانتا ہوں کے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہو گی جوصرف اتنی دیر بس میں سفر کرے گی جب تک یہ سفر مفت  ہو گا.
اس پروجیکٹ کے لئے تقریبآ 8 کلومیٹرطویل پل بھی تعمیر کیا گیا ہے جس سے سواریوں کو نیچے زمین تک لانے کے لئے لفٹس لگائی جاہیں گی.ان لفٹس کو جو کہ 24 گھنٹے چلیں گی،ان کی آپریشنل کوسٹ کتنی زیادہ ہو گی،آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں.خبر یہ بھی ہے کہ اس بس میں سفر کے لئے ای ٹکٹنگ بوتھس قایم کئے جاییں گے ،ان کی آپریشنل کوسٹ الگ سے ہو گی .
ڈیزل یا سی این جی کی قیمت الگ .کیا اتنے سارے خرچے نکالنے کے بعد یہ پروجیکٹ منافع دےپاے گا؟

ایسا لگتا ہے کہ شہباز شریف کو بھی صورتحال کی سنگینی کا علم ہے لیکن  وہ کچھ اپنی آنا کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ اب پروجیکٹ پے  اربوں خرچ ہو چکے ہیں ،کچھ کرنے سے قاصر ہیں .بہرحال اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹا جائے کہ اس پروجیکٹ سے لاہور شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہو گا (اور جو آلودگی میں یزفہ ہوا ہے اس کی وجہ سے اور آگے بھی ہو گا،وہ کس کھاتے میں جائے گا،جی؟)

سوال یہاں یہ بھی اٹھتا ہے کہ اچانک شہباز شریف کو کیا سوجھی اس پروجیکٹ کو کرنے کی؟تو جواب یہ ہے کہ اس پروجیکٹ سے بہتر پروجیکٹ یعنی لاہور سب وے کی فزیبلٹی رپورٹ چودھری پرویز الہی نے اپنے دور میں تیار کروآیی 
تھی مگر فنڈز نہ ہونے کے سبب پورا نہ کیا اس کو .اور یہ بہت ہی  مضحکہخیز بات ہے کہ حکومت پنجاب کروڑوں روپے خرچ کر کے اپنے پروجیکٹ کا موازنہ اس پروجیکٹ سے کر رہی ہے.سب وے پے  بیشک خرچ زیادہ ہوتا،مگر اس سے لاہور کی شان کتنی بڑھتی اس پے کوئی توجہ نہیں دلاتا .؟ٹورازم کو کتنا فروغ ملتا،وہ بھی کوئی نہیں سوچتا .    

شہباز شریف سے یہ سوال بھی پوچھنا بنتا ہے کہ جناب آپ کب تک میڈیا سے جھوٹ بولتے رھیں گے؟پچھلے سال جب آپ نے لاہور میں نیئی بسیں چلانے کا اعلان کیا تھا تو جناب خادم اعلی صاحب نے کہا تھا کہ پورے لاہور میں نیی بسیں چلایی جاہیں گی جو کہ ایئر کنڈیشنڈ ہوں گی،لیکن ایسا ہوا نہیں .صرف دو روٹس پر اے سی بسیں چلآیی گیئں.روٹ نمبر 1 اور روٹ نمبر 12 .اور روٹ نمبر12 کی بھی آدھی سے زیادہ بسیں پرانی کھٹارہ ہیں.روٹ نمبر ٢٦ پر صرف ایک نیی بس ہے اور کل بسوں کی تعداد صرف 6 ،5 ہے .میرا دل بہت کڑھتا ہے  جب دیکھتا ہوں کہ خادم اعلی صاحب عوام کے پیسے پر باہر کے سرکاری دورے کر رہے ہیں اور عوام بسوں میں اس طرح ٹھس کر سفر کرنے پے  مجبور ہے جیسے کسی ٹرالی میں بھوسا .

جناب خادم صاحب کیا صرف ان روٹس پے نیی بسیں چلانا پسند کرتے ہیں آپ،جو نہر کے ساتھ ساتھ ہیں یا مال پر؟جناب کیا باقی لاہور کی عوام کا  حق نہیں کہ وہ ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولتوں سے مستفیض ہوں؟جناب آپ کو لوگوں کومعطل کرنے کا بہت شوق ہے نہ؟تو اب آپ اپنے چہیتے رانا تجممل سے استعفیٰ لیں جو لاہور میں ٹرانسپورٹ چلا رہا ہے اور ابھی تک ٹرانسپورٹ کے مسایل حل کرنے میں ناکام رہا ہے .کیا آپ لیں گے استعفیٰ اس سے ؟

جناب آپ کے دور میں ساڑھے چار سال عوام نٹر سٹی ٹرانسپورٹ مافیا کا ہاتھوں لٹتی رہی،آپ نے کیا کیا؟ٹرانسوپورٹرس اپنی مرضی کے کرایے وصول کرتے رہے ،آپ نے کیا کیا؟بادامی باغ اڈے کی حالت زار پی عوام روتے رہے ،آپ نے کیا کیا؟اب آپ ایک ریپڈ بس کا ڈھونگ رکھا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آپ عوام کے ٹرانسپورٹ سے متعلقہ مسایل حل کرنے کے لئے مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں .آپ عوام کو تو بیوقوف بنا لیں گے،لیکن خدا کو کیا جواب دیں گے ؟
  

No comments:

Post a Comment