آج کل ڈاکٹر طاہر القادری نے ملک میں دھوم مچایی ہوئی ہے .ہر اخبار ،ہر بلیٹن میں ان کی خبریں چل رہی ہیں.ویسے شیخ الاسلام کا عہدہ اب تو رہا نہیں ،لیکن جب ہوتا تھا تو کل عالم اسلام کا سب سے بڑا سرکاری عہدہ تھا .
آج تک یہ معمہ بھی حل نہیں ہوا کہ یہ لقب انہیں دیا کس نے ؟اگرچہ مشھور اداکار فردوس جمال کا کہنا ہے کہ یہ لقب انہیں ان کے مرشد پر صاحب آف دیول شریف نے دیا تھا .ویسے شیخ صاحب کے مخالفین کو ان پر یہ اعتراض ہے کہ ان کو بشارتیں بہت کثرت سے ہوتی ہیں .خیر اس بارے میں تو وہی بتا سکتے ہیں کہ ان کو دی گیئ یہ بشارتیں وقت پہ پوری کیوں نہ ہوئیں ؟
بہرحال جو چیز حیران کن ہے وہ یہ کہ صوفی برکت علی جیسے صاحب نظر آدمی بھی ان سے خاص اور لگن کا اظہر کرتے تھے .نجانے ایسا کیوں تھا ؟یہی نہیں ،صاحب علم پیر ،پیر نصیر الدین نصیر نے ان کی شان میں ایک سہرا بھی کہا تھا .لیکن پیر نصیر صاحب نے تو عرفان شاہ مشہدی کی بھی تعریف کی تھی جو ڈاکٹر صاحب کا سخت مخالف ہے اور اس کی باتوں اور عادت و اطوار سے جہالت اور تکبّر ٹپکتا ہے .عرفان شاہ کی مسجد میں بیٹھ کر ڈاکٹر صاحب کے حامی کو گالیاں دینے والی ویڈیو بھی موجود ہے انٹرنیٹ پر.الله جانے کہ پیر صاحب نے آگ اور پانی دونوں سے دوستی گانٹھنے کی کوشش کیوں کی ؟
حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی بہت سی متنازعہ بشارتوں کے باوجود علماء اور مشایخ کی ایک کثیر تعداد ڈاکٹر صاحب کی حمایت کرتی ہے .ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹر اسرار ملعون کی مولا علی کرم الله وجھھ ،علیھ سلام کی شان میں گستاخی کے بعد جو تفصیلی جواب ڈاکٹر صاحب نے دیا تھا ،اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کے بہت سے مداح اہل تشیع میں بھی پیدا ہو گئے تھے ،مگر پھر ڈاکٹر صاحب کو نجانے کیا سوجھی کہ اہل تشیع سے خود ساختہ مناظرہ کرنے چل پڑے .علمی استدلال تو خوب دیے ،مگر جہاں ڈنڈی مارنی پڑی ماری ،کیونکہ بهرحال اپنی دکان بھی بچانی تھی .مگر نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ وہ صرف بریلویوں کی ایک محدود جماعت کے نمایندہ بن کر رہ گئے .
23 دسمبر کو ان کا اجتماع خاصا بڑا تھا ،لیکن اس میں تقریبا %90 لوگ وہ تھے جو ان کے مدرسے کے طلبہ تھے اور ان کی فیملیز .اب ڈاکٹر صاحب نے 10 جنوری کو لونگ مارچ کی نوید سنایی ہے.میرا ذاتی خیال ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے ارادوں میں کامیاب ہو جاہیں گے ،ملک میں 3 ،2 سال کے لئے ایک نِ٨گڑَن سیٹ اپ قایم کر دیا جائے گا ،دونوں بڑی جماعتوں کا صفایا کر دیا جائے گا،کچھ بڑے مسایل حل کر کے عوام کو بھی ریلیف دے دیا جائے گا ،یوں عوام کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا ،جیسے مشرّف کے دور میں عوام سب بھول بھال گیے تھے ،اور ججز بحالی تحریک اور لال مسجد نے لوگوں کو مشرّف کے خلاف کیا .امید تو یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو اس نگران سیٹ اپ کا سربراہ بنا دیا جائے.اور یوں شاید ان کی وہ بشارت سچ ثابت ہو جائے جس کے مطابق انہیں اس ملک کا وزیر اعظم بننا تھا .اگر انہیں نہ بنایا گیا تو غالباً PTI کے مرکزی رہنما اسد عمر کو نگران سیٹ اپ کا سربراہ بنا دیا جائے کیونکہ ان کے پاس Engro Group کی management کا خاصا تجربہ ہے .
آگے کیا ہوتا ہے،یہ تو ہمیں 10 جنوری کے بعد ہے پتہ چلے گا .
No comments:
Post a Comment