عام طور پرسنی حضرات کی جانب سے اکثر یہ کوشش کی جاتی ہے کہ شیخین یعنی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کا مقام شیعہ دشمنی میں اتنا بڑھا دیا جائے کہ نعوز باللہ یوں گمان ہوتا ہے کے خوارج کے اثرات ان میں لوٹ آیے ہیں اور یہ شیخین کا َمقام نبی آخر الزمان حضرت محمّد صلّی الله علیھ و اله وسلّم سے بھی زیادہ دکھانا چاہتے ہیں.اسی ہے ایک روایت وہ ہے جس کا مفہوم ہے کہ عمر جس راستے سے گزر جاتا ہے ،شیطان بھی وہاں سے گذرتے ہوے ڈرتا ہے.ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علماء اس روایت کو سیدھا مسترد کر دیتے،اس بنا پر کہ جو چیز ،جو وصف نبی نے اپنے لئے مقرّر نہیں کیا،وہ عمر کے لئے کیسے ہو سکتا ہے؟اور جب قرآن میں الله نے کہا ہے کہ اس نے شیطان کو قیمت تک خالی چھٹی دی ہے ،وہ جیسے چاہے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے ،تو پھر جب الله نے اسے آزادی دی ہے قیامت تک،تو وہ بھلا ایک آدمی کے کسی راہ سے گزرنے سے کیوں گھبرایے گا ؟لیکن چوں کے میرے سنی بھائی اس سے بھی قایل نہیں ہوتے ،تو عرض ہے کے جناب اگر یہی بات ہوتی ٹوہ پھر واقعہ حرّہ کیوں ہوتا؟مسجد نبوی میں گھوڑے کیوں باندہھے جاتے ؟صحابیات کی عصمتیں کیوں پامال کی جاتیں؟اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو شیطان اور اس کے چیلے چانٹوں کو مدینہ میں قیامت تک داخل ہے نہیں ہونا چاہئے تھا .
لکن اگر اس سے بھی تسلی نہیں ہوتی تو ایک لنک دے رہا ہوں جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک شخص مسجد نبوی میں ایک عورت سے نازیبا حرکات کرتا ہوا پکڑا گیا ہے
http://english.ahram.org.eg/News/60650.aspx
.جب شیطان مسجد نبوی میں جا کر لوگوں کو ورغلا سکتا ہے تو پھر اس روایت کے صحیح ہونے کی ایک ہے صورت ہو سکتی ہے،وہ یہ کہ حضرت عمر کبھی مدینہ میں رہے ہی نہ ہوں ،اور کبھی مسجد نبوی بھی نہ گیے ہوں.
No comments:
Post a Comment