30 October 2014

دھرنے کا جائزہ اور مستقبل

               اسلام آباد میں عمران خان کے دھرنے کو آج ستر روز سے زائد گزر چکے ہیں.ان کے منہ بولے کزن قادری صاب حسب سابق اپنے سسرال کینیڈا پدھار چکے ہیں.اپنے مشن کو حسینی مشن کہہ کر اور حکمرانوں کو یزیدی کہہ کر ایک مرتبہ پہلے بھی قادری صاب نے اسی طرح پیٹھ پھیر لی تھی مگر اب کی بار تو سید الشہدا امام حسین علیہ سلام کی شہادت کا مہینہ آتے ہی قادری صاب اپنے قول و قرار سے منحرف ہو گئے.گرچہ ابھی تک عمران اور قادری دونوں کچھ نہیں حاصل کر پائے مگر کچھ حلقے یہ کہہ کر ان کی ڈھارس بندھا رہے ہیں کہ چلیں عوام میں بیداری کی لہر تو آئی.آنے والی سطور میں ہم دھرنے کے نتائج کا مختصر سا جائزہ لیں گے 
                 اس دھرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ پہلے جو تھوڑی بہت عوام قادری کی عزت کرتی تھی بحیثیت عالم دین، اب وہ اس کے مسلسل دوسرے یو ٹرن سے متنفر ہو گئے ہیں.اب عوام کو اس کی کذب بیانی کا یقین ہو چکا ہے.نیز عوام جان چکی ہے کہ روز روز بیانات بدلنے والا ملا، کبھی ریاست نہیں چلا سکتا.یہی وجہ ہے کہ فیصل آباد میں تو حامد رضا صاحب کی مہربانی سے قادری نے کچھ چالیس ہزار کے قریب مجمع اکٹھا کر لیا مگر لاہور میں جب جلسہ ہوا تو دن کا وقت دیا گیا تھا شرکا کو،مگر رات گیارہ بجے کے قریب قادری صاب پنڈال میں پہنچے تو خالی کرسیاں ان کا منہ چڑا رہی تھیں.مگر کمال استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ سارا لاہور جلسے میں امڈ آیا ہے (غالباً یہ بھی کہا کہ دس لاکھ لوگ شریک ہیں جلسے میں).میرے خیال میں وہی جلسہ ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور قادری کو اندازہ ہو گیا کہ اب ریت مٹھی سے نکل چکی ہے لہذا اگلے روز اتحادیوں سے مشورہ کر کے اسی 'یزیدی نظام' کے تحت عوامی تحریک کے ضمنی الیکشن لڑنے کا بھی اعلان کیا.اس سے پہلے علامہ صاب فیصل آباد میں عوام سے ووٹ اور نوٹ کا وعدہ لے چکے تھے مگر تب تک ہدف جنرل الیکشن تھا.
            یہ نوٹ اور  ووٹ کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ بقول کچھ صحافیوں کے، قادری صاب کو مغرب سے کافی فنڈنگ ملتی ہے اسلام کا نرم اور اعتدال پسند چہرہ پیش کرنے کیلئے، مگر دھرنے کے دوران پارلیمینٹ پر قبضے اور پی ٹی وی پر مبینہ حملے کی وجہ سے ان کا یہ امیج خراب ہوا اور اس بات کے امکانات پیدا ہو گئے کہ مغرب ان کے سر سے دست شفقت کھینچ لے.لہذا علامہ صاب نے مناسب سمجھا کہ یہاں پر اپنی آمدن کا کوئی متبادل بندوبست کرتے جائیں.اب قادری صاب نہ دنیا کے رہے نہ سیاست کے 
         دوسری طرف خان صاب کا دھرنا تھا ، جس کو ابتدائی ایک ماہ میں تو قادری صاب کی وجہ سے کافی آسرا تھا.پھر گاہے بگاہے یہ صورتحال بن گیی کہ ویک اینڈ پرایک معقول تعداد آتی تھی دھرنے میں اور عام دنوں میں دونوں 'کزنز' مجمع شئیر'کر لیتے تھے.مگر عمران خان، نواز شریف کے استعفے سے کم پر راضی نہ تھے شاید یہی وجہ تھی کہ شہباز شریف کے استعفے کی پیشکش کی جو افواہیں ایک مرحلے پر گرم ہوئی  تھیں ، وہ بھی حقیقت نہ بن سکیں.جلسے کے دوران میوزک کے علاوہ عمران خان اور شیخ رشید نے کافی مرتبہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا خصوصا جب عمران خان نے کہا کہ میں نیا پاکستان اسلئے بنانا چاہتا ہوں کہ میں شادی کر لوں.
لو کر لو گل........!
خیر عمران خان نے بھی جلسے شروع کر رکھے ہیں اور محرم کے بعد تیس نومبر کو بڑے جلسے کی کال دی ہے 

آگے کیا ہو گا / ہو سکتا ہے ؟
نواز شریف موجودہ دھرنوں کے بحران سے تو نکل گیا ہے مگر اب اسے گھیرنے کیلئے کوئی اور چال چلنی پڑے گی، یہ سوچ غالباً اسٹیبلشمنٹ کے دماغوں میں چل رہی ہے.میرے ایسا کہنے کی وجہ کیا ہے یہ میں اگلی سطور میں واضح کرتا ہوں 
 ١- دھرنوں کے دوران آصف زرداری اور بلاول سرگرم ہو گئے اور پنجاب میں اپنا قیام بڑھایا.وہ زرداری جو اپنے صدارت کے پانچ سال میں پنجاب میں نہیں ٹھہرا،وہ یہاں دس دن سے زائد پارٹی امور کے سلسلے میں قیام کر کے گیا.میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی یقین دہانی کروائی مگر شاید زرداری کو کوئی سن گن لگ گیی تھی مڈٹرم الیکشن کی،اسی واسطے بلاول کی ہنگامی لانچنگ کی گیی 
٢- نواز شریف کو کیسے گھیرا جائے اس سلسلے میں ایک کڑی تو یہ ہو سکتی ہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت سے تحریک انصاف استعفیٰ دے دے یا اسمبلی ہی تحلیل کر دے.گزشتہ روز عمران خان نے بار بار سراج الحق اور جماعت اسلامی کو تنقید کا نشانہ بنایا ، تو اس کا مقصد بھی بظاھر یہی لگتا ہو 
٣- متحدہ اور پی پی میں کافی تلخیاں پیدا ہو چکی ہیں .گو اس میں گزشتہ روز کچھ کمی آئی مگر ابھی صورتحال کلئیر نہیں قرار دی جا سکتی.ہو سکتا ہے کہ عاشور کے بعد متحدہ الگ صوبے کے قیام کیلئے ایجیٹیشن شروع کر دے  
٤-اس ضمن میں ایک اور سٹریٹجی جو نہایت دلچسپ ہے وہ یہ کہ ن لیگ کے اندر ایک یا ایک سے زائد فارورڈ بلاک بنائے جائیں اور 'ان ہاوس' تبدیلی لائی جائے.اس ضمن میں ذوالفقار کھوسہ کا کہنا ہے کہ پچاسی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ان کے ساتھ ہیں.اسی طرح ساہیوال سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی پیر صفدر رسول کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ اکیاونناراض  ناراض ارکان ہیں.اب یہ ناراض ارکان صرف اپنی قیادت تبدیل کروا کے ن لیگ کے اندر سے ہی کوئی نیی  قیادت لانا چاہتے ہیں یا تحریک انصاف کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہتے ہیں،یہ جاننے کیلئے چند ہفتے انتظار کرنا پڑے گا 
٥- شیخ رشید اپنی تقریر میں کہہ چکا ہے کہ عمران خان عنقریب پہیہ جام اور ملک گیر ہڑتالوں کی کال دے گا.بظاھر یہ بھی حکومت پر دباؤ بڑھانے کا ایک نسخہ نظر آتا ہے مگر میرا خیال ہے کہ یہ آخری حربہ ہو گا تحریک انصاف کا کیونکہ اس میں ناکامی کے امکانات زیادہ ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ صرف خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے.باقی صوبوں میں کہیں بھی قابل ذکر تعداد نہیں اس جماعت کی.تو پہیہ جام اور ہڑتال کیسے اور کیونکر ہو گی ؟اور ویسے بھی جن لوگوں کا روزگار ٹرانسپورٹ سے وابستہ ہے ، ان کو تو پریشانی اور تکلیف ہو گی ہی مگر عوام کو کتنی پریشانی ہو گی اس کا ادراک شاید شیدا ٹلی اور عمران خان دونوں کو نہیں .......

قصہ مختصر یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر یہ تمام نکات متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی طرف سے ایک ایک کر کے پانچ سے تیس نومبر کے درمیان استعمال کئے جا سکتے ہیں (سوائے ہڑتال کے،یہ نکتہ تیس نومبر کے جلسے کے بعد استعمال کیا جائے گا غالباً) اور کچھ مثبت نتیجہ بھی نکل سکتا ہے اسٹیبلشمنٹ کے حق میں.بقول شاعر:
                             پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ 
اور 
                           ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے 'ساقی' 
(ساقی اور جام کے  متعلقہ سٹیک ہولڈرز میں کسی سے، کسی قسم کے  تعلق کا ذمہ دار راقم الحروف نہیں ) 
   

04 September 2014

بھارت سے موازنہ

کچھ عرصہ  پہلے  ملک میں چینی اور آٹے  کا بحران آیا تو ن لیگی سپورٹرز نے ایک نیی منطق تراشی کہ اس وقت بھی پاکستان میں آٹا  تمام ہمسایہ ممالک سے سستا مل رہا ہے.یہ لاجک تراشتے ہوئے انہیں بجلی اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں کے موازنے کی جرات نہیں ہوئی.حقیقت حالانکہ یہ ہے کہ بھارت کی کچھ ریاستوں میں سرکار رعایتی  نرخوں پر چاول اور آٹے کی فراہمی یقینی بناتی ہے تفصیل جس کی یہ ہے کہ چاول تین روپے فی کلو اور آٹا  دو روپے فی کلو کے حساب سے مستحق خاندانوں میں بانٹا جاتا ہے اور ایک خاندان کو ماہانہ ٣٥ کلو تک راشن رعایتی  نرخوں پر ملتا ہے.
ابھی جو عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے کے سبب جو نیا سیاسی بحران آیا ہے، اس پر ن لیگی سوشل میڈیا پر اور روزمرہ زندگی میں بھی پاک فوج  پر تبرے کر رہے ہیں کہ بھارت اتنا بڑا ملک ہے وہاں کبھی آرمی نے مداخلت کیوں نہیں کی ؟وہاں تو آرمی کے تین چیفس کے کورٹ مارشل ہوئے ہیں، وہاں ریٹائرڈ جرنیل چھ بائی  آٹھ کی دکان چلاتے ہیں وغیرہ وغیرہ.تو اس کا جواب بہت سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ بھارت کی آرمی دس لاکھ کے قریب ہے جبکہ ہماری سات لاکھ کے قریب لیکن بھارت کا رقبہ ہم سے ساڑھے  چار گنا ہے اور پاکستان میں تو صرف ایک طالبان کی تحریک اور بلوچستان تحریک چل رہی ہے، بھارت میں بیس کے لگ بھگ مضبوط تحاریک چل رہی ہیں جن میں آسام ، ناگا لینڈ، چھتیس گڑھ وغیرہ کی تحاریک زیادہ قابل ذکر ہیں.اس کے علاوہ جموں و کشمیر جو متنازعہ علاقہ ہے،وہاں بھی ایک بڑی تعداد تعینات ہے فوج کی.یہ مختلف تحاریک کس قدر مضبوط ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ ایک ریاست کا وزیراعلی ان شدت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہو چکا.لہذا ایک تو بھارتی آرمی بہت زیادہ  محاذوں پر مصروف ہے اندرونی بھی اور سرحدی بھی.تو جو باقی نفری بچتی ہے وہ اس قدر نہیں ہے کہ مختلف ریاستوں میں ممکنہ فوجی مداخلت کے خلاف ہونے والے احتجاجوں کو دبا سکے.ورنہ بقول شاعر :
  ہر دل میں ارماں ہوتے تو ہیں، بس کوئی سمجھے ذرا 
پٹواریوں سے عرض ہے کہ موازنہ کریں تو پھر اسباب کا بھی موازنہ کریں.وہاں پر اختیارات کی تقسیم کا کیا عالم ہے اور یہاں کیا حال ہے.وہاں صوبوں کی تقسیم پر یہاں کی طرح کسی کو مروڑ نہیں اٹھتے.سوا ارب انسانوں کے سمندر کی ضروریات کیلئے کھینچ تان کر بجٹ نکالنے کے بعد ویسے بھی بھارت  سرکار کے پاس اتنا کچھ نہیں بچتا ہو گا کہ وہ فوج کو اراضی الاٹ کر سکے.جس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ کیا نکلنا ہے، یہ ہیں مختصر سے اسباب کہ کیوں بھارت میں مداخلت نہیں کرتی فوج اور کیوں وہاں فوجی جرنیل ریٹائرمنٹ کے بعد دکانیں چلانے پر مجبور ہیں   

02 September 2014

تباہی ناگزیر ہے

آج جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، اسلام آباد میں طاہر القادری اور عمران خان کے دھرنے کو اٹھارہ دن ہو چکے ہیں.
عمران خان کا مطالبہ وزیر اعظم نواز  شریف  کا استعفیٰ ہے جبکہ طاہر القادری ایک جامع انقلابی پیکج کی بات کرتے  آئے ہیں جس میں  صوبوں کی  تقسیم، غریبوں کو ارزاں نرخوں پر راشن اور بجلی کی فراہمی، بے روزگاروں کو الاونس اور بلدیاتی انتخابات وغیرہ شامل ہیں،.علاوہ ازیں وہ تکفیریت  کے خاتمے کی بات کرتے ہیں جس کی وجہ سے دیوبندی  حضرات بہت جزبجز ہیں .... اسی وجہ سے میں طاہر القادری کے ایجنڈے کا حامی ہوں کہ وہ ایک جامع اصلاحاتی پیکج کی بات کر رہا ہے
آج مورخہ دو ستمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کی فرمایش پر سینیٹ اور قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس ہو رہا ہے.ن لیگ نے یہ اجلاس بلایا ہے اور اب اس ملک کو نوچ کھسوٹ کر کھانے والے سب لوگ آئین و جمہوریت کی بالادستی کی بات کر رہے ہیں کیونکہ یہ نہیں چاہتے کہ اس ملک میں احتساب کا کوئی نظام آ جائے.ان کی منشا یہی ہے کہ یہی گلا سڑا نظام چلتا رہے جس میں اول تو کسی کو کوئی سزا نہیں ہوتی اور ہو بھی جائے تو صدر کے ایک اشارے سے سات خون معاف ہو جاتے ہیں.
ایل پی جی کے ٹھیکوں سے مال بنانے والا اعتزاز احسن کس لئے جمہوریت کا ساتھ دے رہا ہے ، سب جانتے ہیں.اپنے بھائی کو گورنر بنوانے والا محمود اچکزئی جو کبھی بلوچستان سے پختوں علاقے الگ کر کے ایک نیا صوبہ  بنانے کا مطالبہ کرتا تھا ، وہ  کیوں جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے کسی سے دھکا چھپا نہیں.
ق لیگ تقریباً ختم ہو چکی، پیپلز پارٹی تہیہ کر چکی کہ ہم نے سندھ پر ہی اکتفا کرنا ہے ایسے میں پنجاب اور پختونخواہ کے ہزارہ  ڈویژن کو ن کے حوالے کر دیا گیا ہے.عہد و پیمان باندھ لئے گیۓ ہیں کہ تم ہم سے چشم پوشی کرنا، ہم تم سے کریں گے.مل کر کھائیں پییں گے، اس پاگل عوام کو انہی سیاسی نعروں کا اسیر بنا کر رکھیں گے. ایسے میں تکفیریت اور اس بوسیدہ سیاسی اور انتظامی نظام کے خلاف طاہر القادری آخری آواز ہے.اگر اس کی تحریک کے نتیجے میں یہ نظام تبدیل نہ ہوا. تو عوام کیلئے تباہی ہی تباہی ہے.
سانحہ ماڈل ٹاون کے چودہ قتل کا معاملہ بھی دب جائے گا اور تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے جو کرکنان پنجاب بھر میں قید کر لئے گئے ہیں، ان پر قیامت ڈھائی جائے گی.تکفیریوں کے ایجنڈے پر قائم  یہ حکومت مزید کھل کر اپنا کھیل کھیلے گی.میڈیا کے کچھ بااثر رائے ساز افراد حکومت کی دلالی کرتے رہیں گے اور عوام کو سب اچھا ہونے کا یقین دلاتے رہیں گے اور ملک خدانخواستہ ٹی بی کے مریض کی طرح کھانس کھانس کر مر جائے گا.یقین نہیں آتا تو وہ خبریں پڑھ لیجئے کہ بلوچستان میں داعش کیلئے خیر مقدمی کلمات لکھے جا رہے ہیں، اور پشتو میں داعش کے کتابچے شائع ہو رہے ہیں اور  پشاور میں مقیم افغان مہاجرین میں بانٹے جا رہے ہیں ........  


01 September 2014

ایک &%$# آدمی ....ہاشمی ہاشمی

مجھے جاوید ہاشمی کا کردار مشکوک لگ رہا ہے 
یہ شخص جماعت اسلامی سے چھوڑ کر آمر کے کندھے پر اسمبلی میں آیا 
فوج سے پیسے لے کر اسلامی جمہوری اتحاد میں گیا 
پھر اس تعلق کو نبھانے کیلئے ن لیگ میں گیا 
تحریک انصاف میں گیا تو پھر الزام لگا کہ آئی ایس آئی کی ایما پر گیا ہے 
دھرنے سے پہلے اور دھرنے کے دوران پندرہ دن تک اسے کچھ عجیب یا غلط نہیں لگا 
اچانک اس نے اپنی ہی باتوں کی نفی کرتے ہوئے تحریک انصاف پر فوج سے روابط کا الزام لگا دیا 
اب اس ماضی کے ریکارڈ کی روشنی میں تو اسے جمہوریت کا چمپین یا اصول پسند سیاستدان ہرگز نہیں کہا جا سکتا 
سوال یہ ہے کہ فوج کی نیت ہو کچھ کرنے کی تو دو تین دن ہی کافی ہوتے ہیں، فوج نے سترہ دن سے کچھ نہیں کیا باوجود اس کے کہ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں آرمی چیف کی بابت جھوٹ بولا اور بار بار ایسا تاثر دیا کہ فوج اس سب کے پیچھے ہے.کچھ دیگر ن لیگی وزرا نے یہ تاثر دیا کہ یہ سب مشرف کیس کی وجہ سے ہے.ایسے حالات میں شریف سے شریف انسان بھی جھنجھلا کر جوابی حملہ کرتا ہے مگر فوج نے ابھی تک یہ نہیں کیا....... اس کا مطلب یہ ہے کہ ن نے کچھ غلطیاں کی ہیں مگر ہاشمی کی صورت میں کم از کم ایک پتا سمجھداری سے کھیل گیۓ ہیں وہ . 
 رہا سوال یہ کہ کیا فوج اسکے پیچھے ہے  تو بھئی فوج نے جب آنا ہوتا ہے تو 'صحت و صفائی کی صورتحال' کا جائزہ لینے کے بہانے بھی آ جاتی ہے تو یہاں تو  چکے ہیں دھرنے کو ، آرمی چیف کے مطلق پارلیمینٹ  میں جھوٹ بولے جا رہے ہیں، پی ٹی  وی پر چند منٹ کیلئے قبضہ ہو گیا، اس قبضے کیلئے آرمی کو الزام دیا گیا مگر آرمی پھر بھی حکومت کو باہر کرنے کیلئے نہیں آئی...... اس سب سے تو یہی لگتا ہے کہ آرمی کا آنے کا کوئی ارادہ نہیں البتہ اگر ان سیاستدانوں نے آرمی کو یونہی چیونٹی کی طرح بار بار کاٹ کر مجبور کیا تو پھر 'کیڑی کو ٹھڈا جائز' کے مصداق آرمی کو آنا پڑے گا 


31 August 2014

سیاست اور مبالغہ

بعض صاحبان مبالغے میں اس حد تک تیز ہوتے ہیں کہ الامان الحفیظ...ایسے ہی ایک صاحب کو جانتا ہوں.ان صاحب کےکوئی جاننے والے کہوٹہ میں کسی اچھی پوسٹ پر ہیں اور وہ اپنے اس عزیز کا تعارف لوگوں میں یوں کرواتے ہیں کہ 'ایٹم بم اوہنے ای بنایا سی'.

یہی مبالغہ آرائی کرنے والے صاحب، جو فطرتا ن لیگ کے پکے حامی ہیں، کل کسی کو کہہ رہے تھے کہ طاہر القادری نے دس ہزار غلیلیں خریدی ہیں اور لال مرچ کی گولیاں بھی خریدی ہیں جو  کہ پڑیوں کی شکل میں ہیں ... ان کی بات سن کر مجھے شفقت محمود کا اٹھاسی ہزار موٹر سائیکلوں والا بیان یاد آ گیا اور اندر ہی اندر 'ہاسا' نکل گیا میرا ، لیکن ان کی عمر کی وجہ سے خاموش رہا 


29 August 2014

تذکرہ سلسلہ شریفاں

سلسلہ شریفیہ  جسے سلسلہ شریفاں  کہا جاتا ہے، پنجاب کا ایک نامور سلسلہ ہو گزرا ہے.اس سلسلے کی بنیاد محمد شریف نامی ایک درویش نے رکھی.موصوف خاندانی طور پر لوہار تھے مگر کچھ اپنی محنت سے اور کچھ بادشاہ وقت، سلطان غرب الہند ضیاء الحق کی مہربانی سے ان کا شمار صنعتکاروں میں ہونے لگا.تمام درویش صفت لوگوں کی طرح انہیں بھی بچوں سے بہت پیار تھا خصوصا  اپنے بچوں سے.اسی لئے حاکم وقت کی مہربانی سے اپنے بڑے  بیٹے کو ریاستی  سیاست میں داخل کروایا حالانکہ صلاحیت اس میں گلی محلے کے نزاعی امور نمٹانے  کی بھی نہ تھی، مگر بس الله والوں کی نظر کا جو منظور ہو جائے، اس کے کیا کہنے.
                                                           
سیاست و روحانیت میں قدم فرما ہونے 


حضرت نواز شریف آف رائونڈ شریف کی ایک خوشگوار موڈ میں یادگار تصویر  
موصوف کے یہ بڑے صاحبزادے  نواز شریف کے نام سے جانے جاتے تھے اور اسم بامسمی  تھے.ناصرف  یہ کہ وہ خود اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے آنے کی بجائے 'نوازے' گئے تھے بلکہ وہ خود بھی نوازنے کی صفت سے مالامال تھے.جب اپنی خود کی الگ جماعت بنائی  اور پہلا الیکشن جیتا تو اپنے چھوٹے بھائی کو سب سے بڑی ریاست کا سربراہ بنایا.
                                                    

حضرت نواز شریف تدبر سے مالامال تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالم با عمل بن گئے مثلا وہ اول خویش  بعد درویش کے مقولے کو جتنی سنجیدگی سے لیتے تھے اور عمل کرتے تھے شاید ہی دنیا کی حالیہ تاریخ میں کسی نے کیا ہو.ان کی حکمت عملی یہ ہوتی تھی کہ اول بھی خویش ، بعد بھی خویش.جود و سخا کا یہ عالم تھا کہ جب کسی کی دعوت کرتے تو دسترخوان پر کم از کم ستر اقسام کے کھانے چنے جاتے اور یہ سارا کھانا وہ لوگ کھاتے جنہوں نے کبھی 'پیٹ بھر' کر نہیں کھایا ہوتا تھا.   
                                                
زمانہ عسرت  میں آپ کے دستر خوان کا ایک منظر 
انتخابی نشان شیر تھا مگر طبیعت میں ملائمت  اور نرمی اس قدر تھی کہ جب آپ کو پابند سلاسل کیا گیا تو مچھروں سے بھی گھبرا جاتے تھے.ان کا خود کا کھانا پینا نہایت سادہ تھا، جو ملتا کھا لیتے اور اگر کچھ نہ ملتا یا کم ملتا تو دوسرے کے سامنے سے اٹھا کر کھا لیتے.انہوں نے اپنی ساری زندگی پیار محبت کا پرچار کیا، نفرت سے بچنے کی تلقین خاص کر ذات پات کی بنیاد پر.ان کی اس تلقین کو ان کی صاحبزادی نے بہت سنجیدگی سے لیا.آپ کی طبیعت میں استغنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.اپنے لئے کچھ بچا نہیں رکھتے تھے، سب کچھ اپنے بچوں کے کاروبار میں لگا دیتے تھے یا دیگر ریاستوں کے پاس امانت رکھوا دیتے تھے.

آپ کی وجہ موت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک دنیا دار قسم کا شخص جو نیازی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا خانقاہ قادریہ کے ایک درویش کے ہمراہ لشکر جمع کر کے دارالخلافہ پہنچا اور آپ سے تخت چھوڑنے کا مطالبہ کرنے لگا.
                                               
دائیں :نیازی سردار
بائیں : خانقاہ قادریہ کا درویش
             


اگرچہ دنیا سے آپ کو کوئی لگاؤ نہیں تھا مگر عوام (جو کہ آپ کے خیال میں آپ کے خلفا اور مریدین پر مشتمل تھی) کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا شرعی طور پر ٹھیک نہیں.آپ خود بھی اسی بات کے قائل تھے.کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بشر خطا کا پتلا ہے، اسی لئے آپ بار بار سیاسی خطاؤں کا ارتکاب کرتے تھے مگر ہمارے نزدیک اس قول کی سند کچھ زیادہ مضبوط نہیں اور سلسلہ  شریفان کے جو وابستگان باقی بچے ہیں، انہوں نے بھی اسے قابل اعتبار نہیں جانا.
                                                   
اپنے مریدین کی محبتوں کا جواب دیتے ہوئے 
    


آخر جب احتجاج حد سے بڑھ گیا تو مملکت کے سپہ سالار نے کاروبار زندگی کو بحال کرنے کی غرض سے آپ سے استعفیٰ مانگا اور انکار پر آپ کو پابند سلاسل کر دیا.
                                             
سپہ سلار جس نے آپ کو پابند سلاسل کروایا 

                                                           
زمانہ اسیری کی ایک تصویر 

آپ پر چند لوگوں کی ہلاکت کا مقدمہ چلا، متعلقہ قاضی نے آپ کو مصلوب کرنے کے احکامات دیے اور یوں آپ  نے اپنا نذرانہ حیات قضا کو پیش کیا. آپ کے بہت سے خلفا تھے جن میں ایک حضرت اسحاق ڈالر اور حضرت شوباز زیادہ مشھور'ہوئے ہیں، ان میں سے موخر الذکر کو بھی آپ کے ساتھ ہی مصلوب کیا گیا.
                                                 
مریدین اور خلیفہ اسحاق ڈالر کے ہمراہ خدا کی بارگاہ میں حاضری دیتے ہوئے 

آپ دونوں حضرات کا مزار رائیونڈ میں ہے.اب بھی سلسلہ شریفاں کی خانقاہیں کہیں کہیں لاہور سے پنڈی کے راستے میں پائی جاتی ہیں 
                                               

مورخہ 
١٠ ستمبر ٢٠٥٠