Showing posts with label Tuq. Show all posts
Showing posts with label Tuq. Show all posts

26 February 2015

وقت بھلا دیتا ہے، سب رانگ نمبر بھلا دیتا ہے

انسان کو ہمہ وقت کسی ایسے وجود کی تلاش رہتی ہے جو اس کے دکھ درد کو دور کرے اور اس کی خاطر وہ کسی کو بھی اپنے تیئں  کسی بھی مقام پر فائز کر لیتا ہے .خصوصا برصغیر کے لوگ اس معاملے میں بہت فرسودہ طرز عمل کے مالک ہیں
نوے کی دہائی میں امریکہ میں ایک ہندو عالمی منظر ابھرا 'اوشو' کے نام سے.اس نے روحانیت پر لیکچر دینا شروع کئے تو سننے والوں کا ہجوم بتدریج بڑھتا گیا. بالآخر امریکہ نے کوئی قانونی ایشو بنا کر اسے نکالا.بھارت آ کر اس نے پونے میں اپنا ایک شہر بنا لیا چھوٹا سا جہاں ہر شعبہ زندگی کے لوگ تھے اور وہ انہیں کہتا تھا کہ تمھیں ضروریات زندگی کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، سب کچھ ملے گا تمھیں.اس کی باتوں سے بڑی بڑی شخصیات متاثر ہوئیں حتی کہ اپنے اپنے شعبوں کے ماہر بعض بڑے بڑے مسلمان.اس نے اپنی زندگی میں خدائی کا دعویٰ بھی کیا اور جب وہ مرا تو ٩٣ رولس رائیس کاروں کا مالک تھا
گو اکثریت نے اسے بھلا دیا ، مگر کچھ لوگ اب بھی اسکی تعلیمات کو مانتے ہیں.مگر خیر یہ تو ایک بہت بڑے سکیل کی مثال تھی، اب ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں

آج سے کوئی تیرہ، چودہ برس پہلے جب پی-ٹی-وی ورلڈ ہوتا تھا تو اس پر کوئی ڈاکومنٹری بڑے اہتمام سے دکھائی جاتی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ تنزانیہ میں شرف الدین الخلیفہ نام کا کوئی بچہ پیدا ہوا ہے جس نے جب بولنا شروع کیا تو (بقول اسکی ماں کے) وہ قران کی تلاوت کر رہا تھا. اسکی مارکیٹنگ کر کے ناصرف تنزانیہ میں تھرتھلی مچائی گیی بلکہ اس ڈاکومنٹری میں ایسے مناظر بھی تھے جس میں وہ بچہ مبینہ غیر مسلم جوڑے کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کر رہا ہے.بس پھر کیا تھا جناب، اس زمانے میں چونکہ انٹرنیٹ ایک عیاشی سمجھی جاتی تھی تو پاکستان میں لوگوں نے سی-ڈی پر وہ ڈاکومنٹری رائٹ کر کے بیچنی شروع کر دی اور اتنی بکی کہ کچھ نا پوچھو.کسی نے قطب، کسی نے مجدد تو کسی نے کچھ بنا دیا اس بچے کو اپنے تیئں.مگر کچھ عرصے بعد ایک پھیکی پھیکی سی خبر آئی کہ یار وہ بچے والا کیس تو فراڈیا نکلا 
 بس وہیں خبر ٹھپ، اور عوام بھی مزید سہارے ڈھونڈنے مریں مگن ہو گیی......

اب بات سے  بات نکالتے ہوئے مجھے کہنے دیجئے کہ یہی روش ہماری عوام  کی سیاست کے بارے  میں ہے.یہاں جو انقلاب و تبدیلی کا نعرہ  لگاتا ہے عوام اسے اپنا مسیحا سمجھ لیتے ہیں.مثال  کے طور پر ، طاہر القادری صاحب جن کا نام فقط دو صیغوں کا ہے مگر ان کے چاہنے والوں کی طرف سے دیے گئے القابات کو سمونے کیلئے کم از کم پانچ سے چھ سطور درکار ہوں گی، اپنا اعجاز مسیحائی دکھانے کیلئے ایک بار ٢٠١٢ میں پاکستان آئے اور اوائل ٢٠١٣ میں دارالخلافہ میں ہزیانی انداز میں ہڑبونگ مچائی.اپنے کارواں کو حسینی اور حکومت وقت کو یزیدی قرار دیا.بعد ازاں زمانے نے وہ منظر بھی دیکھا جب اس سو-کالڈ حسینی کارواں کا قائد یزیدی حکومت کے نمائندوں سے جپھے مار رہا تھا.اپنے مریدوں کو رول رال کر قادری صاحب بابل کے دیس کینیڈا شریف سدھار گئے.

چونکہ شہرت کا چسکا جس شخص کو لگ چکا ہو اس کو یہ چسکا ٹک کر نہیں بیٹھنے دیتا لہذا قادری صاب بھی ٢٠١٤ میں واپس آئے اور رنگ برنگی نوٹنکی لگائی.اس بار ان کا ساتھ دینےکیلئے ان کے منہ بولے کزن جناب علامہ عمران خان نیازی بھی تھے.دونوں گھمسان کا رن ڈال کر دو ماہ خوار ہوتے رہے.بعد ازاں ٣٥ سال مغرب کے وضو سے فجر پڑھنے اور دو ، دو دن تک ایک سلائیس پر گزارا کرنے کا دعویٰ کرنے والے رجنی کانت صفت طاہر القادری دل کی تکلیف میں مبتلا ہوئے (یہ نہیں پتا چل سکا کہ تکلیف معنوی تھی یا طبعی ، مگر ان کے منہ بولے کزن نے چند ماہ بعد جس طرح سے عقد ثانی کیا اس سے دیکھ کر ان کے بارے میں بھی اول الذکر پر قیاس کیا جا سکتا ہے)  اور علاج کیلئے ایک بار پھر پردیس سدھار گئے.انقلاب ختم ہوا تو چند ماہ بعد دہشتگردی کے ایک افسوسناک واقعے کے نتیجے میں تبدیلی کے پروڈیوسرز کو بھی پکچر ختم کرنے کا موقع مل گیا 

اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ سب اتنی تمہید میں نے کیوں لکھی ؟
یہ میں نے اسلئے لکھی کیونکہ 
.
.
.
.
.
.
.
کیونکہ سینیٹ الیکشن ہونے والے ہیں اور شنید ہے کہ بعد از الیکشن نیے اداکار ، نیے پریشر گروپس سکرین پر لانے کی تیاریاں ہیں.یعنی 'سیاسی رانگ نمبر'.اور مجھے اپنے پروردگار کی رحمت سے پوری امید ہے کہ جس طرح عوام آج تک رانگ نمبرز کو بھلاتی آئی ہے اسی طرح اب کی بار بھی بھلا کر ان نیے تماشوں میں گم ہو جائے گی.

04 September 2014

بھارت سے موازنہ

کچھ عرصہ  پہلے  ملک میں چینی اور آٹے  کا بحران آیا تو ن لیگی سپورٹرز نے ایک نیی منطق تراشی کہ اس وقت بھی پاکستان میں آٹا  تمام ہمسایہ ممالک سے سستا مل رہا ہے.یہ لاجک تراشتے ہوئے انہیں بجلی اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں کے موازنے کی جرات نہیں ہوئی.حقیقت حالانکہ یہ ہے کہ بھارت کی کچھ ریاستوں میں سرکار رعایتی  نرخوں پر چاول اور آٹے کی فراہمی یقینی بناتی ہے تفصیل جس کی یہ ہے کہ چاول تین روپے فی کلو اور آٹا  دو روپے فی کلو کے حساب سے مستحق خاندانوں میں بانٹا جاتا ہے اور ایک خاندان کو ماہانہ ٣٥ کلو تک راشن رعایتی  نرخوں پر ملتا ہے.
ابھی جو عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے کے سبب جو نیا سیاسی بحران آیا ہے، اس پر ن لیگی سوشل میڈیا پر اور روزمرہ زندگی میں بھی پاک فوج  پر تبرے کر رہے ہیں کہ بھارت اتنا بڑا ملک ہے وہاں کبھی آرمی نے مداخلت کیوں نہیں کی ؟وہاں تو آرمی کے تین چیفس کے کورٹ مارشل ہوئے ہیں، وہاں ریٹائرڈ جرنیل چھ بائی  آٹھ کی دکان چلاتے ہیں وغیرہ وغیرہ.تو اس کا جواب بہت سادہ ہے اور وہ یہ ہے کہ بھارت کی آرمی دس لاکھ کے قریب ہے جبکہ ہماری سات لاکھ کے قریب لیکن بھارت کا رقبہ ہم سے ساڑھے  چار گنا ہے اور پاکستان میں تو صرف ایک طالبان کی تحریک اور بلوچستان تحریک چل رہی ہے، بھارت میں بیس کے لگ بھگ مضبوط تحاریک چل رہی ہیں جن میں آسام ، ناگا لینڈ، چھتیس گڑھ وغیرہ کی تحاریک زیادہ قابل ذکر ہیں.اس کے علاوہ جموں و کشمیر جو متنازعہ علاقہ ہے،وہاں بھی ایک بڑی تعداد تعینات ہے فوج کی.یہ مختلف تحاریک کس قدر مضبوط ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ ایک ریاست کا وزیراعلی ان شدت پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہو چکا.لہذا ایک تو بھارتی آرمی بہت زیادہ  محاذوں پر مصروف ہے اندرونی بھی اور سرحدی بھی.تو جو باقی نفری بچتی ہے وہ اس قدر نہیں ہے کہ مختلف ریاستوں میں ممکنہ فوجی مداخلت کے خلاف ہونے والے احتجاجوں کو دبا سکے.ورنہ بقول شاعر :
  ہر دل میں ارماں ہوتے تو ہیں، بس کوئی سمجھے ذرا 
پٹواریوں سے عرض ہے کہ موازنہ کریں تو پھر اسباب کا بھی موازنہ کریں.وہاں پر اختیارات کی تقسیم کا کیا عالم ہے اور یہاں کیا حال ہے.وہاں صوبوں کی تقسیم پر یہاں کی طرح کسی کو مروڑ نہیں اٹھتے.سوا ارب انسانوں کے سمندر کی ضروریات کیلئے کھینچ تان کر بجٹ نکالنے کے بعد ویسے بھی بھارت  سرکار کے پاس اتنا کچھ نہیں بچتا ہو گا کہ وہ فوج کو اراضی الاٹ کر سکے.جس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ کیا نکلنا ہے، یہ ہیں مختصر سے اسباب کہ کیوں بھارت میں مداخلت نہیں کرتی فوج اور کیوں وہاں فوجی جرنیل ریٹائرمنٹ کے بعد دکانیں چلانے پر مجبور ہیں