یہ کالم اوریا مقبول جان نے عید میلاد النبی کے موقع پر لکھا تھا .اور یہ روایت بہت مشہور بھی ہے البتہ اسس کی جزئیات پہلی دفع پڑھنے کو ملی ہیں ،اور میں ان کو پڑھ کر بہت پریشانی میں ہوں .پہلی بات تو یہ کہ جب بڑے بڑے مورخین نے بڑے موضوعات سے متعلق مستند تاریخ ہم تک نہیں پہنچنے دی، تو یہ تو پھر ایک ضمنی موضوع ہے .خیر اس کالم میں ایک گستاخی کے پہلو پنہاں ہے،جسے شاید اوریہ صاحب نے محسوس نہیں کیا .وہ پہلو یہ ہے کہ جب کعب بن زہیر نے بقول اوریا صاحب کے ،اپنا قصیدہ سنایا تو اس میں اپنی معشوقہ کے ساتھ ایک حوض میں نہانے کا ذکر بھی کیا .جو بندہ نبی صلّی الله علیھ وآلہ وسلّم سے زیادہ صحابہ کی مدح کا خواہشمند ہو،اس سے ایسی حرکات کچھ بعید از ممکنات بھی نہیں کہ وہ اپنی تحریروں میں لکھ دے کے ایک شاعر اپنی محبوبہ کہ حوض میں نہانے کا قصّہ سناے ،اور واضح طور پر عشق مجازی پر مبنی شہوانی کلام سناتا رہے ،اور نبی صلّی الله علیھ و آلہ وسلّم اسے منع نہ فرمایں.
یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟یہ بات ایک واجبی سے شعور والے مسلمان کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے ،اور اوریا صاحب جیسے بندے کی ذمے داری تو اور بھی بڑھ جاتی ہے.
اور یہی اوریا صاحب انصار عبّاسی صاحب کے ساتھ مل کر آرٹس کے فروغ کے خلاف بولتے ہیں اور میڈیا کو فحاشی کا طعنہ دیتے ہیں ،لیکن ان کے نزدیک محبوبہ کے ساتھ حوض میں نہانے کا تذکرہ فصاحت و بلاغت میں شمار ہوتا ہے. یہ لوگ ناموس رسالت کے حق میں بڑھ چڑھ کر بولتے ہیں ،مگر خود اپنی تحریروں اور کلام میں گستاخیاں کرنے سے باز نہیں آتے .یہ لوگ کس منہ پاکستان میں خلافت کے قیام کی بات کرتے ہیں ،الله ان پڑھے لکھے جاہلوں سے بچاے ،جو اسلام کو بدنام کرنے پہ تل گئے ہیں .آمین .
No comments:
Post a Comment