31 August 2014

سیاست اور مبالغہ

بعض صاحبان مبالغے میں اس حد تک تیز ہوتے ہیں کہ الامان الحفیظ...ایسے ہی ایک صاحب کو جانتا ہوں.ان صاحب کےکوئی جاننے والے کہوٹہ میں کسی اچھی پوسٹ پر ہیں اور وہ اپنے اس عزیز کا تعارف لوگوں میں یوں کرواتے ہیں کہ 'ایٹم بم اوہنے ای بنایا سی'.

یہی مبالغہ آرائی کرنے والے صاحب، جو فطرتا ن لیگ کے پکے حامی ہیں، کل کسی کو کہہ رہے تھے کہ طاہر القادری نے دس ہزار غلیلیں خریدی ہیں اور لال مرچ کی گولیاں بھی خریدی ہیں جو  کہ پڑیوں کی شکل میں ہیں ... ان کی بات سن کر مجھے شفقت محمود کا اٹھاسی ہزار موٹر سائیکلوں والا بیان یاد آ گیا اور اندر ہی اندر 'ہاسا' نکل گیا میرا ، لیکن ان کی عمر کی وجہ سے خاموش رہا 


29 August 2014

تذکرہ سلسلہ شریفاں

سلسلہ شریفیہ  جسے سلسلہ شریفاں  کہا جاتا ہے، پنجاب کا ایک نامور سلسلہ ہو گزرا ہے.اس سلسلے کی بنیاد محمد شریف نامی ایک درویش نے رکھی.موصوف خاندانی طور پر لوہار تھے مگر کچھ اپنی محنت سے اور کچھ بادشاہ وقت، سلطان غرب الہند ضیاء الحق کی مہربانی سے ان کا شمار صنعتکاروں میں ہونے لگا.تمام درویش صفت لوگوں کی طرح انہیں بھی بچوں سے بہت پیار تھا خصوصا  اپنے بچوں سے.اسی لئے حاکم وقت کی مہربانی سے اپنے بڑے  بیٹے کو ریاستی  سیاست میں داخل کروایا حالانکہ صلاحیت اس میں گلی محلے کے نزاعی امور نمٹانے  کی بھی نہ تھی، مگر بس الله والوں کی نظر کا جو منظور ہو جائے، اس کے کیا کہنے.
                                                           
سیاست و روحانیت میں قدم فرما ہونے 


حضرت نواز شریف آف رائونڈ شریف کی ایک خوشگوار موڈ میں یادگار تصویر  
موصوف کے یہ بڑے صاحبزادے  نواز شریف کے نام سے جانے جاتے تھے اور اسم بامسمی  تھے.ناصرف  یہ کہ وہ خود اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے آنے کی بجائے 'نوازے' گئے تھے بلکہ وہ خود بھی نوازنے کی صفت سے مالامال تھے.جب اپنی خود کی الگ جماعت بنائی  اور پہلا الیکشن جیتا تو اپنے چھوٹے بھائی کو سب سے بڑی ریاست کا سربراہ بنایا.
                                                    

حضرت نواز شریف تدبر سے مالامال تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالم با عمل بن گئے مثلا وہ اول خویش  بعد درویش کے مقولے کو جتنی سنجیدگی سے لیتے تھے اور عمل کرتے تھے شاید ہی دنیا کی حالیہ تاریخ میں کسی نے کیا ہو.ان کی حکمت عملی یہ ہوتی تھی کہ اول بھی خویش ، بعد بھی خویش.جود و سخا کا یہ عالم تھا کہ جب کسی کی دعوت کرتے تو دسترخوان پر کم از کم ستر اقسام کے کھانے چنے جاتے اور یہ سارا کھانا وہ لوگ کھاتے جنہوں نے کبھی 'پیٹ بھر' کر نہیں کھایا ہوتا تھا.   
                                                
زمانہ عسرت  میں آپ کے دستر خوان کا ایک منظر 
انتخابی نشان شیر تھا مگر طبیعت میں ملائمت  اور نرمی اس قدر تھی کہ جب آپ کو پابند سلاسل کیا گیا تو مچھروں سے بھی گھبرا جاتے تھے.ان کا خود کا کھانا پینا نہایت سادہ تھا، جو ملتا کھا لیتے اور اگر کچھ نہ ملتا یا کم ملتا تو دوسرے کے سامنے سے اٹھا کر کھا لیتے.انہوں نے اپنی ساری زندگی پیار محبت کا پرچار کیا، نفرت سے بچنے کی تلقین خاص کر ذات پات کی بنیاد پر.ان کی اس تلقین کو ان کی صاحبزادی نے بہت سنجیدگی سے لیا.آپ کی طبیعت میں استغنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.اپنے لئے کچھ بچا نہیں رکھتے تھے، سب کچھ اپنے بچوں کے کاروبار میں لگا دیتے تھے یا دیگر ریاستوں کے پاس امانت رکھوا دیتے تھے.

آپ کی وجہ موت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک دنیا دار قسم کا شخص جو نیازی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا خانقاہ قادریہ کے ایک درویش کے ہمراہ لشکر جمع کر کے دارالخلافہ پہنچا اور آپ سے تخت چھوڑنے کا مطالبہ کرنے لگا.
                                               
دائیں :نیازی سردار
بائیں : خانقاہ قادریہ کا درویش
             


اگرچہ دنیا سے آپ کو کوئی لگاؤ نہیں تھا مگر عوام (جو کہ آپ کے خیال میں آپ کے خلفا اور مریدین پر مشتمل تھی) کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا شرعی طور پر ٹھیک نہیں.آپ خود بھی اسی بات کے قائل تھے.کچھ مورخین نے لکھا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بشر خطا کا پتلا ہے، اسی لئے آپ بار بار سیاسی خطاؤں کا ارتکاب کرتے تھے مگر ہمارے نزدیک اس قول کی سند کچھ زیادہ مضبوط نہیں اور سلسلہ  شریفان کے جو وابستگان باقی بچے ہیں، انہوں نے بھی اسے قابل اعتبار نہیں جانا.
                                                   
اپنے مریدین کی محبتوں کا جواب دیتے ہوئے 
    


آخر جب احتجاج حد سے بڑھ گیا تو مملکت کے سپہ سالار نے کاروبار زندگی کو بحال کرنے کی غرض سے آپ سے استعفیٰ مانگا اور انکار پر آپ کو پابند سلاسل کر دیا.
                                             
سپہ سلار جس نے آپ کو پابند سلاسل کروایا 

                                                           
زمانہ اسیری کی ایک تصویر 

آپ پر چند لوگوں کی ہلاکت کا مقدمہ چلا، متعلقہ قاضی نے آپ کو مصلوب کرنے کے احکامات دیے اور یوں آپ  نے اپنا نذرانہ حیات قضا کو پیش کیا. آپ کے بہت سے خلفا تھے جن میں ایک حضرت اسحاق ڈالر اور حضرت شوباز زیادہ مشھور'ہوئے ہیں، ان میں سے موخر الذکر کو بھی آپ کے ساتھ ہی مصلوب کیا گیا.
                                                 
مریدین اور خلیفہ اسحاق ڈالر کے ہمراہ خدا کی بارگاہ میں حاضری دیتے ہوئے 

آپ دونوں حضرات کا مزار رائیونڈ میں ہے.اب بھی سلسلہ شریفاں کی خانقاہیں کہیں کہیں لاہور سے پنڈی کے راستے میں پائی جاتی ہیں 
                                               

مورخہ 
١٠ ستمبر ٢٠٥٠