جنگ اخبار کے ایک کالمسٹ ہیں انصار عباسی نامی.موصوف نجانے کہاں سے دین سیکھتے رہے ہیں ،ہر پندرہ ،بیس دن بعد موصوف کے پاس جب خبروں کا ذخیرہ ختم ہو جاتا ہے تو کسی نان ایشو کو ایشو بنانے چل پڑتے ہیں.کبھی جناب کو اس بات پر اعتراض ہوتا ہے کہ میٹرک کی اردو کی کتاب میں ایک ہندو شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری کی غزلیات کیوں شامل کی گیی ہیں ؟ کبھی مواف کا ہدف تنقید ملالہ ہوتی ہے ،صرف اس لئے کہ اس نے بین الاقوامی قارئین کا ذوق مد نظر رکھ کر نبی آخر الزمان حضرت محمّد کے اسم گرامی کے ساتھ صل الله علیہ و آلہ وسلم نہیں لکھا .
جناب پر ماضی میں یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ ان کا تعلق حزب التحریر سے ہے اور بظاھر یہ الزامات خاصے وزنی لگتے ہیں کیونکہ موصوف بارہا جمہوریت کو تمام خرابیوں کی جڑ اور خلافت کو تمام مسایل کا حل قرار دے چکے ہیں.ابھی حال ہی میں ایک تکفیری گروپ کے سربراہان سے ملاقات کی تصاویر بھی سامنے آی ہیں.موصوف کو یوں تو اسلامی نظام لانے کا بہت شوق ہے مگر جب طالبان کو سزاے موت دینے پر عمل کا وقت اتا ہے تو رات رات بھر ان کو نیند نہیں آتی .کوئی ڈیڑھ ،دو درجن کالم طالبان کی وکالت اور امن قایم کرنے کے لئے ایک اہم اسلامی قانون (قاتل کو سزاے موت ) پرپابندی لگانے کے حوالے سے لکھ مارتے ہیں،مقصد صرف یہ کہ ان کے یار بچ جاییں.اسی طرح بنکنگ سسٹم کو حرام کہتے ہیں مگر اسلامی بنکنگ کو حلال کہتے ہیں حالانکہ اقتصادی اور مذہبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلامی بنکنگ اور عام بنکنگ میں کوئی فرق نہیں .موصوف صرف ایک خاص مکتب کے ایک مفتی کو نوازنے کیلئے اس قسم کی باتیں کرتے ہیں جو وفاقی شرعی عدالت کے جج رہ چکے ہیں ،طالبان کی حمایت کا اظہر بھی کرتے رہتے ہیں ،اور اسلامی بنکنگ کو حلال کہتے ہیں حالانکہ ان کے مذہبی استاد جو خود بھی ایک مفتی ہیںاور اسی مسلک سے ہیں ، وہ اپنے فتوے میں پاکستان میں رایج اسلامی بنکنگ کو حرام قرار دے چکے ہیں.
یہ صاحب مشرف کے خلاف لکھنے میں بھی پیش پیش ہیں کیونکہ انہوں نے ان کی جماعت حزب التحریر پر مناسب وقت پر پابندی لگا کر پاکستان کو ایک باررے نقصان سے بچا لیا تھا شاید اسی چیز کا بغض دل میں لئے بیٹھے ہیں اب تک.
یہ صاحب مشرف کے خلاف لکھنے میں بھی پیش پیش ہیں کیونکہ انہوں نے ان کی جماعت حزب التحریر پر مناسب وقت پر پابندی لگا کر پاکستان کو ایک باررے نقصان سے بچا لیا تھا شاید اسی چیز کا بغض دل میں لئے بیٹھے ہیں اب تک.
ابھی حال ہی میں ایک پورا کالم انہوں نے اس بات کی مذمت میں لکھا ہے کہ آکسفورڈ کی کتب میں امہات المومنین ،صحابہ کرام اور آئمہ کے اسما مبارک کے ساتھ رضی الله عنہ / عنہا کیوں نہیں لکھا گیا ؟موصوف کو پتہ ہونا چاہیے تھا کہ بین الاقوامی قارئین کیلئے جب کوئی کتاب لکھی جاتی ہے تو اسی اسلوب میں لکھی جاتی ہے.اور اگر موصوف نے کسی ملا سے دین سیکھنے کی بجاے خود بھی تھوڑی بہت کوشش کی ہوتی تو ان کو معلوم ہوتا کہ کتب احادیث میں جہاں جہاں احادیث بیان ہوئی ہیں،کہیں بھی اصل متن میں کسی صحابی ،صحابیہ ،ام المومنین کیلئے رضی الله عنہ کا صیغہ استعمال نہیں ہوا بلکہ صرف ناموں کا ذکر ہے اور خود نبی کریم صل الله علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ بھی درود کا صیغہ اصل متن میں موجود نہیں .
جناب انصار عباسی صاحب ! ملک کے حقیقی مسایل پر توجہ دیجئے اور تسلیم کر لیجئے کہ انویسٹیگیٹو جرنلزم آپ کے بس کی بات نہیں .آپ صرف عدلیہ اور طالبان کی چاپلوسی ہی کر سکتے ہیں .
No comments:
Post a Comment