09 August 2013

who are salafis


لفظ سلفی سلف سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے آج سے صدیوں پہلے گزرے آباء یا اسلاف(آبا ء و اجداد) مثلاً رسول خدا ؐ کے بعد جو لوگ آئے انہیں اسلاف ِ اسلام کہتے ہیں۔مسلمانوں کے اندر ایک گروہ ہے جسے سلفی(وہابی) کہتے ہیں۔ سلفیوں کی پیدائش سعودیہ عرب کے شہر حجاز میں ہوئی۔سلفی اسلام پر یقین رکھنے والے افراد کسی مجتہد یا امام جیسے امام ابو حنیفہ یاامام احمد بن حمبل وٖغیرہ کو نہیں مانتے ۔سلفیوں کا ماننا ہے کہ اسلام کی بنیادسلف صالح یا اسلاف ہیں اور یہ سارے مجتہدین اور امام بعد میں آئے ہیں اور بعد میں آنے والوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

سلفی کسی بھی امام کے فتویٰ اور احکامات کو نہیں مانتے اور اہل سنت کے ہر چار اماموں میں سے کسی کی بھی اتباع اور تقلیدنہیں کرتے اور نہ ہی انہیں مقدس خیال کرتے ہیں۔ سعودیہ عرب میں ایجاد ہونے والی یہ سلفیت پوری دنیا میں پھل پھول رہی ہے اور خاص کر پاکستان میں سلفیوں کی تحریک خو ب زوروں پر ہے۔سلفی جن کو مانتے ہیں ان لوگوں میں رسول ؐ خدا کے بعد پہلی نسل صحابہ اور دوسری تابعین شامل ہیں اس کے بعد جو تیسری نسل آئی، سلفی ان کو حجت تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔سلفی کہتے ہیں کے ہمیں ان شروعاتی دور کی دو نسلوں کی طرف لوٹنا چاہئے اور بعد میں آنے والی نسلوں کی پیروی نہیں کرنی چاہئے۔سلفیوں کے نزدیک جو اعمال اسلاف نے انجام دئے بس وہ ہی صحیح ہیں اور اس کے علاوہ بعد میں آنے والوں کی پیر و ی کرنا بدعت ہے جیسے میلاد اور دیگر رسمیں یہ سب اسلاف کے بعد آئی ہیں اور اسی لئے یہ ساری رسومات غلط ہیں۔عر ب ممالک کے سلفی موجودہ دور میں رائج نام رکھنا بھی پسند نہیں کرتے جیسے اسلم اور اکرم وغیرہ بلکہ اس کے بجائے عبیدہ ، حارث ، طلحیٰ اور ہنزلہ جیسے ناموں کو ترجیح دیتے ہیں جو کہ ان کے اسلاف سے وابسطہ ہیں۔

سلفیت کا ہو بہو یہی تصور عیسائیوں کے ہا ں بھی پیدا ہوااور ان مسیحی سلفیوں کی انجیل بھی بالکل الگ ہے۔ ان مسیحی سلفیوں کی انجیل بھی کیتھو لک اور پروٹیسٹننٹ فرقوں کی انجیل سے بالکل الگ ہے۔ان مسیحی سلفیوں نے اپنی انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت عیؑسٰی کے حواریوں کی جو پہلی نسل ہے ہمیں ان کی اقدار کی طرف لوٹ کر جانا چا ہئے ۔اس تفکر کے حامی افراد عیسائی سلفی کہلاتے ہیں۔اس وقت دنیا میں مغرب اور عرب دونوں خطوں میں سلفی موجود ہیں محض اس فرق کے ساتھ کے عرب دنیا میں جو سلفی موجود ہیں وہ اپنے اسلامی اسلاف کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں اور جو مغربی دنیا میں سلفی موجود ہیں وہ اپنے عیسائی اسلاف کی طرف لو ٹنا چاہتے ہیں۔

عیسائی سلفی اوائل کی عیسائیت کو زندہ کرنے کے مِشن پر مامور ہیں۔عیسائیوں کے نزدیک اسلاف وہ لوگ ہیں جنہوں نے عیسائیت کی خاطر صلیبی جنگیں لڑیں اور قربانیاں دیں اور عیسائی سلفی ان اسلاف کو صحیح خیا ل کرتے ہیں اورموجودہ دور کی عیسائیت جو کہ یو رپ میں رائج ہے اسے بدعت ٹھہراتے ہیں۔ان سلفی عیسائیوں کا مذہبی مزاج جنگجوانہ ہے اور یہ امن کے بجائے قتل و غارت گری پر زیادہ آمادہ نظر آتے ہیں۔عر ب سلفیت بھی بالکل اسی طرح کے عقائد سے متاثر نظر آتی ہے اور یہ ہر بدعتی کو قتل کرنے کو اپنا مذہبی فریضہ گردانتے ہیں۔یہ عرب سلفی اپنے اسلاف اور ان کے ماننے والوں کے علاوہ سب کو کافر یا خارجی قرار دیتے ہیں اور ان کو واجب القتل قرار دیتے ہیں۔یہ عرب سلفیت جو کہ ایک خاص مذہبی زہنیت ہے جس کا ماننا ہے کہ ہمیں قدیم تاریخ دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے یہ اب سیاست میں تحلیل ہو گئ ہے۔

عربی سلفیت ہو یا غربی سلفیت دونوں کا نظریہ ایک ہی ہے کہ قدیم تاریخ کو دوبارہ زندہ کیاجائے۔عیسائی مذہبی سلفیت کا ایک خاص نظریہ آخری جنگ(فائنل وار) کا نظریہ ہے۔اس آخری جنگ کے نتیجے میں آخر کار مسیحیت کاغلبہ ہو جائے گا اور دیگر اقوام و مذاہب سب تسلیم ہو جائیں گے۔خاص کر عیسائیوں کی کتابوں میں یہ زکر ملتا ہے کہ سارے یہودی آخر ی جنگ کے بعدعیسائی ہو جائیں گے۔یہودی اور عیسائی مذہبی طور پر آپس میں ایک دوسرے کے سخت دشمن ہیں یہاں تک کہ یہودی اپنے آپ کو حضرت عیٰسیؑ کا قاتل کہتے ہیں اور خود عیسائی بھی یہودیوں کو حضرت عیسٰؑی کا قاتل سمجھتے ہیں۔ کیونکہ یہود نے حضرت عیٰؑسی کوسولی پر چڑ ھایا اس لئے یہودیوں سے دشمنی کی وجہ سے عیسائیوں کا مذہبی نشان بھی صلیب ہے جس کا مطلب ہے کہ یہودیوں کے خلاف عیسائیوں کی انتقام کی آگ ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی ہےاور جب تک یہ یہودیوں کو سولی پر لٹکا نہ دیں یہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔اس کا عملی منظر کچھ عرصہ پہلے جرمنی میں دیکھنے میں آیا جس میں عیسائیوں نے یہودیوں کی خون آشام قتل و غارت گری کی جس کو ہولو کاسٹ کے نام سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہےاور بعد میں اس ہولوکاسٹ کو بنیاد بنا کر عیسائیوں نے پوری دنیا میں یہودیوں کی مظلومیت اور غریب الوطن ہونے کا ڈرامہ رچایا اور ان کی آباد کاری کے لئے ایک مسلم ملک فلسطین کو چن کر ایک یہودی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔

یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کا مقصد یہ تھا کہ عیسائیوں کے نظریہ کےمطا بق آخری جنگ(فائنل وار) مشرق وسطیٰ کے اسی خطہ میں لڑی جانی ہےجس کے بعد حضرت عیٰسیؑ ظہور کریں گے اور پھر قیامت رونما ہو جائے گی۔عیسائیوں کے نظریہ کے تحت یہ جنگ حضرت عیٰسؑی اور حضرت محمد ؐ کے مابین لڑی جائے گی کیونکہ ان کے مطابق محمدؐ (معاذاللہ) ایک جھوٹے نبی ہیں اور اس کے بعد سارے مسلمان قتل کر دئے جائیں گے اور سارے یہودی عیسائی ہو جائیں گےجس کے بعد ایک عالمی عیسائی ریاست قائم ہو جائے گی۔دور حاضر میں شام میں جو غیر معمولی جنگ لڑی جا رہی ہے وہ اسی نظریہ کا ایک حصہ ہے۔

اس عالمی جنگ کا ایک اور سیاسی کردار فری میسنز بھی ہیں جو کے دنیامیں لبرل جمہوریت کا ایک عالمی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں اور ہر اس تہذیب کو نابود کرنا چاہتے ہیں جو ان کی راہ میں رکاوٹ ہے۔سلفیوں کی طرح ان کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان کو نیچر کی طرف لوٹایا جائے اور انسان کو حیوانوں کے طرز کی آزادی دے کر ہر قسم کے مذہبی قانون سے چھٹکارہ دلایا جائے۔لبرل جمہوریت کا یہ سفر سوشل ڈیمو کریسی سے شروع ہوتا ہوا آج لبرل جمہوریت تک پہنچا ہےاور اس کا اگلا مرحلہ نیچرل ڈیموکریسی ہے جس کا مطلب ہے ہر قانون سے آزاد حیوانوں کے طرز کی جمہوریت۔ان کا مقصد انسانوں کو جانوروں جیسی آزادی دلانا ہے مثلاً اگر جانور کپڑے نہیں پہنتے تو ہم انسانوں کو بھی کوئی لباس زیب تن کرنے کی حا جت نہیں اسی طرح نیچرل ڈیموکریسی میں محرم و نامحرم کا بھی کوئی فرق موجود نہیں ہے۔

اس عالمی جنگ کا تیسرا کردار سرمایہ داری ہے جو کہ دولت کو اپنا خدا مانتے ہیں ۔ان کی زندگی کا اولین مقصد محض طاقت اور دولت کا حصول ہے۔ان کی نگاہیں بھی مشرق وسطیٰ پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ مشرق وسطیٰ مال و دولت اورقدرتی وسائل سے مالآ مال ہے۔ ان تین عالمی قوتون نے اپنے نظریہ کے تحت منصو بہ بنایا تھا کہ اگر مشرق وسطیٰ کا علاقہ ہمارے قبضہ میں آجائے تو پوری دنیا میں ہماری حکومت ہو گی لیکن ان کو مشکل یہ پیش آئی کہ مشرق وسطیٰ کے اس خطہ میں امام خمینی کی امامت میں ایک اسلامی انقلاب برپا ہوا اور ان کی راہ کی رکاوٹ بن کر ان کے تمام شیطانی نقشو ں کو درہم برہم کر دیا۔ اپنے عزائم میں ناکامی کے بعد انہوں نے ایک نئی منصو بہ بندی کا آغاز کیا جس کے تحت انہون نے مکتب تشیع کی بیخ کنی کرنے کی ٹھانی کیونکہ مکتب تشیع ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اس وقت عربی سلفیت ،

عیسائی سلفیت، نیچرل ڈیموکریٹس اورسرمایہ داری نظام گو کہ ان کے مقاصد ایک دوسرے سے جدا ہیں لیکن فی الحال ان کی ساری توجہ انقلابی تشیع کی نابودی پر مرکوز ہےکیونکہ یہ انقلابی تشیع ان کے عزائم کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔لہٰازا اسلامی انقلاب کے بعد ان عالمی شیطانی طاقتوں نے مشرق وسطیٰ میں ایک کے بعد ایک بحران کھڑے کرنا شروع کر دئےلیکن اللہ کی مدد سے ان بحرانوں کے بعد انقلاب اسلامی اور مضبوط اور پختہ ہو گیا۔ان بحرانوں اور جنگی سختیوں نے مجاہدوں کو مظبو ط سے مظبوط تر اور نا قابل تسخیر بنا د یا ہےجس کا سب سے بڑا دھچکا عربی اور عیسائی سلفیت کو لگا ہے۔

اس وقت انقلابی تشیع کو مٹانے کے لئے سعودیہ عرب بیش بہا دولت خرچ کر رہا ہے۔مشرق و مغر ب مل کر تمام سلفی قوتیں اپنا فائنل راؤنڈ لڑنے شام میں جمع ہو گئی ہیں اور عرب ممالک میں جو وقفے وقفے سے مختلف تنازعات سر اٹھاتے ہیں اس کے پیچھے یہی عربی و غربی سلفیت کی سوچ کارفرماہے۔ یہا ں آخری جنگ لڑے جانے کا منصوبہ ہےاور پو رے عرب میں اس جنگ کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔ابھی تھوڈے عرصے قبل پاکستان تحریک طالبان حملہ کر کےجیل سے اپنے لوگ چھڑا کر لے گئے اور اسی طرح عراق میں القاعدہ نے اپنے لوگ جیلوں پر حملہ کر کے آزاد کرالئے ،یہ ساری سلفی قوتیں اپنی تعداد میں مسلسل اضافہ کر رہی ہیں اور تکفیری گروہوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جا رہا ہے۔یہ ساری سلفی قو تیں تشیع کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں۔عر ب خطے میں حالیہ دنوں میں لڑی جانے والی جنگ کو ایک شیعہ سنی جنگ کی طرف لے کر جایا جا رہا ہےگو کہ بلاشک و شبہ اس کے درپردہ صیہونیت کارفرما ہے،لیکن انہوں نے عربی سلفیت کو فرنٹ لائن پر رکھا ہے۔ سعودی شہزادہ ،بندر بن سلطان جو کہ امریکہ میں تیس سال سفیر بھی رہ چکا ہے یہ اس جنگ کا کمانڈر اعلیٰ ہےاور اس کا مقصدحزب اللہ کی طرز پر ایک فوج تشکیل دینا ہے۔ پورے عرب سے سلفیوں کو جمع کر کے یک ایسی فوج تشکیل دینا جو اپنی حجم اور طاقت دونوں میں حزب اللہ سے مقابلہ کر سکےاور اس فوج کا پہلا کام شام کو تسخیر کرنا ہےتاکہ حزب اللہ کا خاتمہ کیا جا سکے۔

حزب اللہ جو کہ انقلاب کا ایک انتہائی طاقتور بازو ہے، جس کی ھیبت سے دشمن دہشت ذدہ رہتا ہے، اس سلفی فوج کا اولین مقصد حزب اللہ کا خاتمہ ہے تاکہ پھر انقلاب ایران کے نظام ولایت فقیہ کو ختم کیا جا سکے جو کہ اسلام دشمنوں کے را ہ کی اصل رکاوٹ ہے۔اس سلفی فوج کا اصل مقصد انقلابی تشیع کو ختم کرنا ہے نہ کے عام روایتی تشیع کو جو کہ محض چند رسومات کی انجا م دہی پر اکتفا کرلیتا ہے۔اس سلفی فوج کا اصل مقصد انقلاب کو مٹا نا اور تشیع کو اس کی سابقہ حالت کی طرف پلٹانا ہےتاکہ وہ ان کے لئے خطرہ کا باعث نہ بن سکے۔اس وقت عرب کے کئی ممالک اس سلفیت کی پشت پناہی کر رہے ہیں مثلاً سعودیا عرب،قطر، تر کی ،ا ردن ،اور لبنان ،اس سلفیت کو پیسہ اور تربیت دونوںچیزیں دل کھول کر فراہم کر رہے ہیں اور صیہونی ان کو جدید اصلحہ اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کر ر ہے ہیں اور اس سلفیت کو ان کی بھرپور سیاسی حمایت بھی حاصل ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ یہ صیہونی ان جنگجوؤں کو افغانستان ، پاکستان ،عراق اور دیگر اسلامی ممالک میں دہشت گرد قرار دیتے ہیں لیکن شام کے خلاف ان ہی دہشت گردوں کی کاروائی کو یہ آزادی کی لڑائی کہتے ہیں اور کھل کر ان کی حمایت کرتے ہیں۔ مصر کی سیاسی حالت ڈرامائی طور پر بدلنے کی وجہ سے ابھی ان میں سے بہت سے جنگجو وہاں کی فوج سے نبرد آز ما ہیں۔شام کی تباہی کی جنگ میں بنیادی طور پر تیں سیاسی قوتیں شامل ہیں ان میں سے ایک اخوان المسلمون ہے جس کا حامی مصر اور ترکی ہیں،اس کے علاوہ ایک عرب سلفی گروہ ہے جس کی پشت پناہی سعودیا عر ب اور قطر کرتے ہیں اور ایک گروہ سیکولر گروہ ہے جس کی مدد فرانس کر رہا ہے۔یہ تین دہشت گرد گروہ مل کر شام میں خوںریز جنگ بپا کئے ہوئے ہیں جس کی فرنٹ لائن سلفی گروپ ہے۔ شام کی لڑائی میں ملوس گروہ اس قدر سفاک اور آدم خور ہیں کہ یہ اپنے حریفوں کا جگر تک چبانے سے گریز نہیں کرتےاور اس خونخواری کی ان گروہوں کو باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔دنیا کے مختلف مسلم ممالک سے جن میں ازبیکستان، پاکستان ، تاجاکستان،چیچنیا وغیرہ شامل ہیں،ان ممالک سے مختلف لوگوں کو شام میں جمع کیا جارہا ہےاور بندر بن سلطان حزب اللہ کو شکست دینے کے لئے ایک بالکل نئی شیعہ مخالف القاعدہ کی بنیاد رکھ رہا ہےجس کے مختلف ہیڈ کوارٹرز دنیا کے الگ الگ ممالک میں ہوں گے۔

ترتیب سے مزاروں کی بے حرمتی بھی اسی جنگ کا ایک تسلسل اور حکمت عملی ہے ۔ پہلے دن کسی شیعہ مقدس مقام پر حملہ ہوتا ہے، دوسرے دن ایک سنی مقدس مقام پر حملہ ہو جاتا ہےمثلاً ایک دن زینبیہ پر حملہ ہوتا ہے اور دوسرے ہی دن خالد بن ولید کے مزار کو تباہ کر دیا جاتا ہے تاکہ شیعہ و سنی جذبات کو ہوا دی جا سکے تاکہ پر امن سنی بھی اس جنگ میں کود پڑیں۔لہٰزا شیعہ سنی جنگ کا تصور بھی ایک فتنہ ہے۔شام کی اس جنگ کو دشمنان اسلام ایک شیعہ سنی جنگ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں لیکن حزب اللہ کی بصیرت نے اس جنگ کو شیعہ سنی جنگ کا فتنہ بننے سے روکا ہوا ہے ۔مسلمانوں کو اب آپس کی لڑائی چھوڈ کر صیہونیوں سے باقاعدہ جنگ کرنے کی ضرورت ہےلیکن یہ فتنہ باز( صیہونی طا قتیں) مسلمانوں کو آپس میں لڑاتی ہیں۔ان فری میسنز نے اس جنگ کی منصوبہ بندی انتہائی مکاری سے کی ہے، انہوں نے پہلے یہودیوں کو قتل کیا پھر دنیا بھر میں ان کی مظلومیت کا پرچار کر کے انہیں اپنے ملکوں سے باہر نکالادے دیا اوراس کے بعد یہودیوں کی ایک ناجائز ریاست اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کے قلب میں بسایااور یہودیوں کو مشرق وسطیٰ میں اپنی جنگ (فائنل وار) لڑنے کےلئےلاجسٹک امداد اور یہودیوں کی حفاظت کی پوری ضمانت بھی دی۔

یہ سارا امت مسلمہ کا المیہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ خود اپنے نور کی حفاظت کرے گا اور اگر سب نے دین کو چھوڈ دیا تو اللہ ایک ایسی قوم پیدا کرے گاجو اللہ کو چاہتے ہوں گے اور اللہ انہین چاہتا ہو گا۔ یہ وہ حزب اللہ (اللہ کا گروہ) ہیں،جو اللہ کے ساتھ عاشقانہ رابطہ رکھتے ہیں،آپس میں نرم اور دشمن کے ساتھ سخت ہیں،ان کی جدوجہد انتھک ہے، اور یہ کبھی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں گھبراتے۔اور آخر کار غلبہ حزب اللہ کے لئے ہے۔

No comments:

Post a Comment