21 December 2015

مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور سرکاری اداروں کا زوال

السلام علیکم !دوستو ، ساتھیو گو کہ میں ایسے اتفاقات کا قائل نہیں مگر پھر بھی کبھی کبھی یہ سوچنے پر مجبور ضرور ہوتا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جب بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت پاکستان میں آتی ہے، صنعتی ادارے زوال کا شکار ضرور ہوتے ہیں؟ گو کہ زوال یا بحران کا آنا جانا کسی خاص فرد یا جماعت کی حکومت سے مشروط نہیں اور ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی اداروں پر بحران آئے مگر پیپلز پارٹی نے ایک مزدور دوست حکومت ہونے کے ناطے ان بحرانوں سے نمٹنے کی بھرپور کوشش کی.آج حالات یہ ہیں کہ ملک کے کیی بڑے سرکاری صنعتی ادارے مثلا ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس ، ہیوی مکینکل کمپلیکس ، پاکستان سٹیل ملز، پاکستان مشین ٹول فیکٹری وغیرہ شدید مالی بحران سے  گزر رہے ہیں. پاکستان مشین ٹول فیکٹری میں گزشتہ ٣ ماہ سے ملازمین کو تنخواہیں نہیں ملی تھیں. اب جبکہ میں یہ سطور  لکھ رہا ہوں تو یہ افواہ میرے پیش نظر ہے کہ پاکستان مشین ٹول کا انتظام سٹریٹجک پلاننگ ڈویزن سنبھالنے لگا ہے. ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس شدید بحران کا شکار تھا اس کی نجکاری اونے پونے داموں کر دی گیی مگر شومیی قسمت کہ خریدنے والی کمپنی کا چیک باونس ہو گیا. گویا                    

              پلے نیئں دھیلہ تے کردی میلہ میلہ


 اسی طرح ملک میں صنعتوں سے متعلقہ سامان بنانے کے سب سے بڑے ادارے ہیوی مکینکل کمپلیکس میں بھی ملازمین کو ٣ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں ، پنشنرز کو پنشن نہیں مل رہی. سٹیل ملز کو بھی وقتا فوقتا بیل آوٹ پیکج کے انجکشن لگائے جاتے ہیں تبھی وہ کچھ سانسیں لے پاتی ہے.برس ہا برس سے ان اداروں کی اپ گریڈیشن  نہیں کی گیی ، فنڈز کی ادائیگی میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں ، ٹاپ مینجمنٹ کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں جس کی وجہ سے بات یہاں تک پہنچی ہے. ان اداروں میں کام کرنے والے انجینیرز کی تنخواہیں اور مراعات بھی بہت کم ہیں.آپ شاید یقین نہ کریں مگر تنخواہیں بعض نان-ٹیکنیکل محکموں کے سترھویں سکیل کے آفیسر کی تنخواہ سے بھی کم ہیں.کیا ایک سترھویں سکیل کے انجینیر کی تنخواہ ٣٥،٠٠٠-٤٠،٠٠٠ کافی ہے جبکہ دیگر وفاقی محکموں میں اتنی تنخواہ گریڈ ١٤ اور ١٦ کے نان-تیکنل لوگ لے رہے ہوں ؟ مذکورہ اداروں میں میڈیکل ، انشورنس ، رہائش وغیرہ کا نظام  بھی بہت ناقص ہے. ایسے میں دلبرداشتہ انجینیرز ملک چھوڑ جانے کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر پرائیویٹ سیکٹر میں کیونکہ یہاں ان کے درد کا، شکایات کا مداوا کوئی نہیں کرتا. اس پر ستم ظریفی یہ کہ موجودہ حکومت نے 'اونٹ کے منہ میں زیرہ' کے مصداق صرف ٧% اضافہ کیا ہے بنیادی تنخواہ میں.ان حالات کے سبب انجینیرز اور ملک کے ہونہار دماغ اپنا معاشی مستقبل محفوظ کرنے کی غرض سے ملک چھوڑ کر دھڑادھڑ خلیجی ممالک میں جا رہے ہیں. حکومت کو اس بارے بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے.


اسی طرح ان اداروں میں ورکرز کی ایک اچھی خاصی تعداد ڈیلی ویجز پر کام کر رہی ہے. اپنی جان ہتھیلی پر رخ کر کام کرنے والے ورکرز کو اپنے مستقبل کی کوئی گارنٹی نہیں اور صرف ١٠،٠٠٠-١٢،٠٠٠ تنخواہ پر یہ لوگ انتہائی خطرناک کام سرانجام دے رہے ہوتے ہیں مگر تنخواہ انہیں بھی وقت پر نہیں ملتی اور اس قلیل سی رقم کیلئے بھی ٣،٣ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے. ڈیوٹی کے دوران اگر ڈیلی ویجز والے کسی ورکر کی وفات ہو جائے حادثے سے تو اس کیلئے کوئی پالیسی بھی نہیں ، جو انتظامیہ کا دل کرے دے دے ، اور چاہے تو صرف دعا مغفرت پر ہی ٹرخا دے.

 اس کے علاوہ ایک اور فیکٹر جو اہم ہے وہ ہے پیپرا رولز کا. ان سب سرکاری اداروں کو پیپرا رولز کے تحت چلنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کو بولی جیتنے میں بہت مشکل ہوتی ہے  اور آرڈر پورا کرنے میں بہت دیر لگتی ہے اور اس چیز کا فائدہ ان کے پرائیویٹ سیکٹر کے حریف اٹھاتے ہیں. نتیجتا ان اداروں کو آرڈر نہیں مل پاتے اور مالی بحران شدید ہو جاتا ہے. اگر وزارت صنعت و پیداوار ان اداروں کو نہیں چلا سکتی تو ان سب کے سب اداروں کا انتظام و انصرام سٹریٹجک پلاننگ ڈویژن کو دے دیں ، وہ لوگ جہاں اتنے ادارے چلا رہے ہیں دو چار اور بھی چلا لیں گے.  

اب تو صرف دعا کر سکتے ہیں کہ ایوان ہائے اقتدار میں سے کوئی باضمیر شخصیت ان اداروں کی زبوں حالی کا معاملہ مقتدر حلقوں کے سامنے اٹھائے، اور ان اداروں کی مضبوطی اور ان میں کام کرنے والے ورکرز کے معاشی تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں ورنہ پھر جو صنعتی ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کا جو کام  ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا ، اس کو بہت جلد ریورس گئیر لگ جائے گا.

(املا کی اغلاط سے درگزر فرمائیے گا کہ تنگی وقت کے سبب اس پر نظر ثانی کا وقت نہیں ملا )