اسلام آباد میں عمران خان کے دھرنے کو آج ستر روز سے زائد گزر چکے ہیں.ان کے منہ بولے کزن قادری صاب حسب سابق اپنے سسرال کینیڈا پدھار چکے ہیں.اپنے مشن کو حسینی مشن کہہ کر اور حکمرانوں کو یزیدی کہہ کر ایک مرتبہ پہلے بھی قادری صاب نے اسی طرح پیٹھ پھیر لی تھی مگر اب کی بار تو سید الشہدا امام حسین علیہ سلام کی شہادت کا مہینہ آتے ہی قادری صاب اپنے قول و قرار سے منحرف ہو گئے.گرچہ ابھی تک عمران اور قادری دونوں کچھ نہیں حاصل کر پائے مگر کچھ حلقے یہ کہہ کر ان کی ڈھارس بندھا رہے ہیں کہ چلیں عوام میں بیداری کی لہر تو آئی.آنے والی سطور میں ہم دھرنے کے نتائج کا مختصر سا جائزہ لیں گے
اس دھرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ پہلے جو تھوڑی بہت عوام قادری کی عزت کرتی تھی بحیثیت عالم دین، اب وہ اس کے مسلسل دوسرے یو ٹرن سے متنفر ہو گئے ہیں.اب عوام کو اس کی کذب بیانی کا یقین ہو چکا ہے.نیز عوام جان چکی ہے کہ روز روز بیانات بدلنے والا ملا، کبھی ریاست نہیں چلا سکتا.یہی وجہ ہے کہ فیصل آباد میں تو حامد رضا صاحب کی مہربانی سے قادری نے کچھ چالیس ہزار کے قریب مجمع اکٹھا کر لیا مگر لاہور میں جب جلسہ ہوا تو دن کا وقت دیا گیا تھا شرکا کو،مگر رات گیارہ بجے کے قریب قادری صاب پنڈال میں پہنچے تو خالی کرسیاں ان کا منہ چڑا رہی تھیں.مگر کمال استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ سارا لاہور جلسے میں امڈ آیا ہے (غالباً یہ بھی کہا کہ دس لاکھ لوگ شریک ہیں جلسے میں).میرے خیال میں وہی جلسہ ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور قادری کو اندازہ ہو گیا کہ اب ریت مٹھی سے نکل چکی ہے لہذا اگلے روز اتحادیوں سے مشورہ کر کے اسی 'یزیدی نظام' کے تحت عوامی تحریک کے ضمنی الیکشن لڑنے کا بھی اعلان کیا.اس سے پہلے علامہ صاب فیصل آباد میں عوام سے ووٹ اور نوٹ کا وعدہ لے چکے تھے مگر تب تک ہدف جنرل الیکشن تھا.
یہ نوٹ اور ووٹ کا معاملہ کچھ یوں ہے کہ بقول کچھ صحافیوں کے، قادری صاب کو مغرب سے کافی فنڈنگ ملتی ہے اسلام کا نرم اور اعتدال پسند چہرہ پیش کرنے کیلئے، مگر دھرنے کے دوران پارلیمینٹ پر قبضے اور پی ٹی وی پر مبینہ حملے کی وجہ سے ان کا یہ امیج خراب ہوا اور اس بات کے امکانات پیدا ہو گئے کہ مغرب ان کے سر سے دست شفقت کھینچ لے.لہذا علامہ صاب نے مناسب سمجھا کہ یہاں پر اپنی آمدن کا کوئی متبادل بندوبست کرتے جائیں.اب قادری صاب نہ دنیا کے رہے نہ سیاست کے
دوسری طرف خان صاب کا دھرنا تھا ، جس کو ابتدائی ایک ماہ میں تو قادری صاب کی وجہ سے کافی آسرا تھا.پھر گاہے بگاہے یہ صورتحال بن گیی کہ ویک اینڈ پرایک معقول تعداد آتی تھی دھرنے میں اور عام دنوں میں دونوں 'کزنز' مجمع شئیر'کر لیتے تھے.مگر عمران خان، نواز شریف کے استعفے سے کم پر راضی نہ تھے شاید یہی وجہ تھی کہ شہباز شریف کے استعفے کی پیشکش کی جو افواہیں ایک مرحلے پر گرم ہوئی تھیں ، وہ بھی حقیقت نہ بن سکیں.جلسے کے دوران میوزک کے علاوہ عمران خان اور شیخ رشید نے کافی مرتبہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا خصوصا جب عمران خان نے کہا کہ میں نیا پاکستان اسلئے بنانا چاہتا ہوں کہ میں شادی کر لوں.
لو کر لو گل........!
خیر عمران خان نے بھی جلسے شروع کر رکھے ہیں اور محرم کے بعد تیس نومبر کو بڑے جلسے کی کال دی ہے
آگے کیا ہو گا / ہو سکتا ہے ؟
نواز شریف موجودہ دھرنوں کے بحران سے تو نکل گیا ہے مگر اب اسے گھیرنے کیلئے کوئی اور چال چلنی پڑے گی، یہ سوچ غالباً اسٹیبلشمنٹ کے دماغوں میں چل رہی ہے.میرے ایسا کہنے کی وجہ کیا ہے یہ میں اگلی سطور میں واضح کرتا ہوں
١- دھرنوں کے دوران آصف زرداری اور بلاول سرگرم ہو گئے اور پنجاب میں اپنا قیام بڑھایا.وہ زرداری جو اپنے صدارت کے پانچ سال میں پنجاب میں نہیں ٹھہرا،وہ یہاں دس دن سے زائد پارٹی امور کے سلسلے میں قیام کر کے گیا.میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی یقین دہانی کروائی مگر شاید زرداری کو کوئی سن گن لگ گیی تھی مڈٹرم الیکشن کی،اسی واسطے بلاول کی ہنگامی لانچنگ کی گیی
٢- نواز شریف کو کیسے گھیرا جائے اس سلسلے میں ایک کڑی تو یہ ہو سکتی ہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت سے تحریک انصاف استعفیٰ دے دے یا اسمبلی ہی تحلیل کر دے.گزشتہ روز عمران خان نے بار بار سراج الحق اور جماعت اسلامی کو تنقید کا نشانہ بنایا ، تو اس کا مقصد بھی بظاھر یہی لگتا ہو
٣- متحدہ اور پی پی میں کافی تلخیاں پیدا ہو چکی ہیں .گو اس میں گزشتہ روز کچھ کمی آئی مگر ابھی صورتحال کلئیر نہیں قرار دی جا سکتی.ہو سکتا ہے کہ عاشور کے بعد متحدہ الگ صوبے کے قیام کیلئے ایجیٹیشن شروع کر دے
٤-اس ضمن میں ایک اور سٹریٹجی جو نہایت دلچسپ ہے وہ یہ کہ ن لیگ کے اندر ایک یا ایک سے زائد فارورڈ بلاک بنائے جائیں اور 'ان ہاوس' تبدیلی لائی جائے.اس ضمن میں ذوالفقار کھوسہ کا کہنا ہے کہ پچاسی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ان کے ساتھ ہیں.اسی طرح ساہیوال سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی پیر صفدر رسول کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ اکیاونناراض ناراض ارکان ہیں.اب یہ ناراض ارکان صرف اپنی قیادت تبدیل کروا کے ن لیگ کے اندر سے ہی کوئی نیی قیادت لانا چاہتے ہیں یا تحریک انصاف کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہتے ہیں،یہ جاننے کیلئے چند ہفتے انتظار کرنا پڑے گا
٥- شیخ رشید اپنی تقریر میں کہہ چکا ہے کہ عمران خان عنقریب پہیہ جام اور ملک گیر ہڑتالوں کی کال دے گا.بظاھر یہ بھی حکومت پر دباؤ بڑھانے کا ایک نسخہ نظر آتا ہے مگر میرا خیال ہے کہ یہ آخری حربہ ہو گا تحریک انصاف کا کیونکہ اس میں ناکامی کے امکانات زیادہ ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ صرف خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے.باقی صوبوں میں کہیں بھی قابل ذکر تعداد نہیں اس جماعت کی.تو پہیہ جام اور ہڑتال کیسے اور کیونکر ہو گی ؟اور ویسے بھی جن لوگوں کا روزگار ٹرانسپورٹ سے وابستہ ہے ، ان کو تو پریشانی اور تکلیف ہو گی ہی مگر عوام کو کتنی پریشانی ہو گی اس کا ادراک شاید شیدا ٹلی اور عمران خان دونوں کو نہیں .......
قصہ مختصر یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر یہ تمام نکات متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی طرف سے ایک ایک کر کے پانچ سے تیس نومبر کے درمیان استعمال کئے جا سکتے ہیں (سوائے ہڑتال کے،یہ نکتہ تیس نومبر کے جلسے کے بعد استعمال کیا جائے گا غالباً) اور کچھ مثبت نتیجہ بھی نکل سکتا ہے اسٹیبلشمنٹ کے حق میں.بقول شاعر:
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
اور
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے 'ساقی'
(ساقی اور جام کے متعلقہ سٹیک ہولڈرز میں کسی سے، کسی قسم کے تعلق کا ذمہ دار راقم الحروف نہیں )